پکےمکان کچےرشتے

In ادب
March 01, 2021

میں چھت پر کھڑی تھی نظریں سامنے بنے پکے خوبصورت گھروں پر پڑیں تو ذہن میں ایک خیال آیا کے آج سے چند دہائیوں قبل یہیں اسی جگہ بسنے والے لوگوں کا رہن سہن،طرز زندگی کتنا الگ تھا-ان کی زندگیاں محدود تھیں،وسائل کم تھے ،مکان کچے تھے،لیکن پھر بھی ان کی زندگیاں آج کل کی نسبت آسان تھیں آج ہمارے پاس گھر،پیسہ ،وسائل سب موجود ہیں پر ان سب کے آنے سے ہماری آساشیں تو بڑھ گئیں پر ہم میں سے اکثریت ان چیزوں کو پورا کرنے کے چکر میں آلائشیں بن کر رہ گئے۔

ہم بس روپے پیسے کی جنگ میں کھو گئے ہیں۔پہلے لوگوں کے مکان بے شک کچے تھےلیکن وہاں بسنے والے لوگ اور رشتے اتنے ہی مظبوط،ناپائیدار گھروں کے گرنےکا اندیشہ تو ہو سکتا تھا پر رشتوں کے ٹوٹنے کا نہیں۔وہ لوگ سخی تھے دل کے بھی اور ممحبتیں بانٹنے میں بھی۔پرآج ہمارے گھر مضبوط ہیں سیمنٹ سے بنے نہ ٹوٹتے ہیں نہ گرتے ہیں ہاں ان کے اندر بسنے والے لوگ ضرور ریزہ ریزہ ہو کے بکھر جاتے ہیں۔آج نہ صرف گھر پتھر کے ہیں بلکہ لوگ بھی۔نہ دل سخی اور نہ ہی محبتوںں میں سخاوت رہی۔آج ہم ذہنی امراض میں مبتلا ہیں تو اس کی بڑی وجہ رشتوں سے اقدار،روایات اور اپنے دین سے دوری ہے اگر ہم روپے پیسے کی دور سے نکل کر تھوڑا وقت ہی اپنے سے جڑے لوگوں میں گزارنا شدوع کر دیںرشتوں سے متعلق بنیادی فرائض پورا کرنے لگیں تو شاید پیسے سے ملنے والی مصنوئی خوشیاں اصلی خوشی میں بدل جائیں ۔نہیں تو شاید ہم آئندہ آنے والے چند سالوں میں اپنے آدھے ادھورے بچے سب رشتوں کو کھو دیں گے۔

نیوز فلیکس 01 مارچ 2021