Skip to content

چائے پینے کے 4 خطرناک نقصانات

چائے ویسے تو ہر گھر میں بڑے شوق سے پی جاتی ہے اور چائے کے پینے فوائد بھی بے شمار ہیں پر کیا آپ جانتے ہیں کے چائے کے فوائد کے ساتھ ساتھ اسکے نقصانات بھی کافی زیادہ ہیں۔ جن سے ہر عام آدمی واقف نہیں ہوتا تو چلیے آج ہم آپ کو چائے پینے کے نقصانات سے متعلق آگاہی دیتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سے لوگ دن میں کتنی دفعہ چائے پیتے ہیں اور کتنی تیز یا کتنی کم تیز چائے پیتے ہیں۔ تاہم میڈیکل سائنس کے مطابق چائے کے نقصانات کا اطلاق آپ کے چائے پینے کی مقدار اور اوقات پر ہوتا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جو چائے دن میں 2 بار پیتے ہیں تو آپ کا شمار نارمل لوگوں میں ہوتا ہے اور اگر آپ دن میں ایک ہی بار چائے پیتے ہیں تو آپ کا شمار نارمل سے بھی نیچے والے درجے میں کیا جائے گا لیکن اگر آپ چائے دن میں 2 سے زیادہ بار پیتے ہیں اور خاص کر سونے سے پہلے اور کھانے کے بعد پیتے ہیں تو آپ کا شمار ایبنارمل لوگوں میں کیا جائے گا۔ اور آپ کی یہ عادت آپ کو خطرناک بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔ نیچے دیئے گئے نقصانات کو غور سے پڑھیں اور یہ جاننے کی کوشش کیجئے کے کہیں آپ اپنی اس عادت کی وجہ ان میں سے کسی نقصان کا شکار تو نہیں ہو گئے۔

نمبر1۔ چائے کے معاملے میں اعتدال سے کام نا لینے اور بے پروائی برتتنے سے جریان کا مرض بھی ہو سکتا ہے۔ جو کہ اگر کسی کو ایک بار لاحق ہو جائے تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتا ہے۔ جریان کے مرض میں پرہیز بھی کافی سخت کروایا جاتا ہے جس میں چائے پینے سے پرہیز بھی شامل ہوتا ہے تب جاکہ جریان ختم ہوتا ہے۔

نمبر2۔ چائے کا کثرت سے استعمال کرنے سے معدے کا السر بھی ہوسکتا ہے جو کہ کافی تکلیف دہ بیماری ہے اور یہ ذیادہ تر چائے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہے۔

نمبر3۔ چائے ضرورت سے زیادہ پینے سے ہاضمے کی نظام میں بھی خرابی پیدا ہوسکتی ہے جس سے انسان جو بھی کھاتا اور پیتا ہے وہ ٹھیک سے ہضم نہیں ہو پاتا اور انسان کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کم چائے پینے والے یا بالکل نہ پینے والے لوگوں میں یہ مسلہ کم ہی دیکھا گیا ہے۔

نمبر4۔ چائے زیادہ پینے سے بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے اور دل کی دھڑکن بھی کافی تیز ہو ہوتی ہے جس کس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیشہ ماہرین لوگوں سے چائے کو کم سے کم پینے کی درخواست کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *