زندگی تماشا فلم بطور پاکستان اسکرمیں جمع
زندگی تماشا فلم بطور پاکستان اسکرمیں جمع.سرمد کھوسٹ کی فلم زندگی تماشا کو 93 میں اکیڈمی ایوارڈ میں داخلے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ لہذا نامزد امیدواروں کا فیصلہ اکیڈمی آف موشن ارٹس اینڈ سائنسز میں آئندہ سال 2021 میں کیا جائے گا۔
اس فلم کے ریلیز ہونے سے پہلے اس نے کافی افراتفری مچا دی تھی۔ مذہبی لوگوں کی شکایات کی وجہ سے اس کی ریلیز بھی روک دی گئی تھی۔
سرمد کھوسٹ کا عمران خان کو خط
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سرمد کھوسٹ نے عمران خان کو خط بھی لکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے زندگی تماشا فلم کسی بھی شخص کو تکلیف یا اذیت دینے کے لیے نہیں بنائی۔
یہ ایک مسلمان کے بارے میں ہے۔ اس فلم میں کسی بھی گروہ کو تکلیف یا اذیت دینے کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ داڑھی والے شخص کو مولوی کہنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ اس فلم میں ایک داڑھی والے شخص کی ہمدرد کہانی کے بارے میں ذکر ہے۔ وہ شخص ایک انسان ہے۔ لہذا اس میں ایسی کوئی برائی کی بات نہیں۔
مختلف اشخاص کی شمولیت
اس فلم کی تیاری میں مختلف اشخاص مثلا نرمل بانو، عارف حسین، ایمن سلیمان، علی قریشی اور ثمنہ ممتاز شامل تھی۔ یہ فلم ایک بہادری والی فلم ہے۔ اس کے علاوہ یہ خاندان اور سیاسی تبصرے کا پورٹریٹ ہے۔
2020 میں دو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کی سربراہی ہوئی ہے اس میں مختلف شخصیات نے کام کیا ہے جیسا کہ فیصل کپاڈیا، اسد الحق، حمزہ بنگش، سید محمد احمد، مہوش حیات، حسن شہریار، عاصم عباسی اور ارشد شامل ہیں۔
زندگی تماشا فلم کی پروڈیوسرکنول
اس فلم کی پروڈیوسرکنول ھیں جنہوں نے بتایا کہ یہ فلم لوگوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے مختلف اقدار، لاہور کا شہر، اور زندگی کی مناسبت تصویر اس میں پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فلم بنانے میں ہم نے بہت کام کیا اس میں ہم نے پاکستانی کہانی بتائی۔ اس لئے مجھے اپنی ٹیم پر بہت فخر ہے۔ اور میں کمیٹی کا بہت شکریہ کرتی ہوں کہ ہماری فلم کو آسکر کے لیے انتخاب کیا گیا۔ اس فلم کو بنانے کے لئے جس طرح ہم نے محنت کی ہے اسکر کے انتخاب کے بعد اتنا ہی دل میں سکون بھی حاصل ہوا ہے۔
سرمد کھوسٹ کا بیان
سرمد کھوسٹ نے کہا کہ زندگی تماشا فلم کو بنانے میں جو مجھے تکلیف ہوئی ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ہے اس سے میرے آرٹ کے اعتماد میں اور بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ فلم میں نے پاکستان میں بنای مجھے دکھ ہے کہ لوگ بدقسمتی سے اس فلم کی آرٹ سے محروم رہے۔ مجھے اپنی ٹیم پر فخر ہے اور اس کمیٹی کے لائق ہونے پر میں انتہائی شکرگزار ہوں۔