وہ آٹھویں کلاس میں پوزیشن لینے کے بعد شہر کے سکول داخل ہوا جو اس کے گھر سے تیس کلومیٹر کی مسافت پر تھا۔ اس نے نویں جماعت میں داخلہ لیا اور باقاعدہ طور پر سکول جوئن کر لیا۔ گھر اور سکول کے درمیان زیادہ مسافت ہونے کی وجہ سے وہ روز صبح جلدی جلدی اٹھتا، ویگن میں بیٹھتا اور سکول کی جانب چل پڑتا۔ سکول چونکہ بہت بڑا تھا اور اس کے لیے تھا بھی نیا، اس لیے شروع میں اس کا دل نہیں لگا کیونکہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا اور سکول شہر میں واقع تھا۔ اس کی ماں صبح سویرے اٹھتی، اس کے لیے ناشتہ بناتی اور اسے سکول روانہ کرتی۔ جب وہ نکلتا تو اس لیے دعا کیا کرتی کہ آئے اللہ میرے بیٹے کو سلامت رکھنا۔ وقت گزرا، اس کے دوست بنے اور یوں اس کا دل سکول میں لگ گیا مگر اس کے لیے مسائل گھر سے سکول آنے جانے میں ہوئے۔ مگر وہ وقت کا بہت پابند تھا اسی لیے وقت سے پہلے سکول پہنچ جاتا۔ اس کی ایک بات کی ہر کوئی تعریف کیا کرتے کہ وہ سکول سے واپسی پر گھر میں کھانا کھانے کی بجائے سیدھا مسجد کا رخ کرتا اور نماز ظہر ادا کرتا۔
یہی خوبی تھی شاید کہ وہ ہمیشہ ہر کلاس میں پوزیشن لیتا۔ اس کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ جب وہ سبق پڑھنے لگتا تو ہمیشہ باوضو ہو کر سبق یاد کرتا۔ کبھی وہ پانچ وقت کی اور کبھی تین وقت کی نماز ادا کر پاتا۔ سکول سے گھر آتے ہوئے وہ سفر کی وجہ سے بہت تھک جاتا پھر بھی نماز اور اپنا کام وقت پر کرتا۔ وقت گزرا، اور ان کے مڈ ٹرم شروع ہوگئے۔ اس نے اس سے پہلے کبھی مڈ ٹرم کا نام تک نہیں سنا تھا۔ یہ امتحان اس کے لیے بالکل نیا تھا اور اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے مگر اس نے اللہ پاک پر چھوڑ دیا اور اپنی طرف سے تیاری میں مگن ہوگیا۔ اس سکول میں اسے اچھے اساتذہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی جو نہایت ہی شفیق تھے۔ پرچے شروع ہوئے اور اس نے بھی اچھی تیاری کے ساتھ پرچوں میں حصہ لیا۔ وہ ہر نماز کے بعد دعا گو رہتا، اس کی ماں بھی اس کے لیے دعا کرتی اور اساتذہ بھی۔
امتحانات ختم ہوئے تو پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ ان کا نتیجہ پندرہ دن بعد آنا تھا اس لیے پڑھائی پہلے سے ہی شروع ہوگئی۔ جس دن نتیجہ آیا تو اس دن سب سیکشن کے بچوں کی پوزیشن کا اعلان کیا گیا۔ جب ان کے سیکشن کی باری آئی تو اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ سب اساتذہ بہت خوش ہوئے، مگر سب سے زیادہ خوشی اس کو ہوئی اور جب وہ گھر آیا تو اس کی ماں کو۔ اس کی ماں نے سب رشتہ داروں کو بتایا اور اسی طرح سب خوش ہوئے۔ اس کے اندر پڑھنے کا جذبہ بڑھا اور اس نے صحت کی پرواہ کیے بغیر زیادہ محنت شروع کردی۔ بورڈ کے امتحانات ہوئے اور اسی طرح اس نے اس میں بھی حصہ لیا۔ امتحانات کے بعد ان کو چھٹیاں دی گئی اور پھر سے دسویں کی کلاسز کا آغاز ہوا۔
دسویں کی کلاسز کے دوران اس کی واقفیت زیادہ لڑکوں سے ہوگئی تھی۔ اب وہ خوشی سے سکول جاتا، سکول کے بغیر اس کا کہیں دل نہیں لگتا۔ نویں جماعت کا نتیجہ آیا تو اس کے نمبر بہت اچھے آئے۔ وہ نماز اور روزہ کا بھی پابند تھا اور اپنا کام بھی ذمہ داری سے کرتا۔ اسی طرح اس نے دسویں کلاس کا امتحان بھی دے دیا۔ ان کو تین ماہ کی چھٹیاں ہوگئیں۔ وہ اب گھر پر بیٹھ کر لکھائی پڑھائی اور مطالعہ کتب میں مصروف ہوگیا۔ اسے کالم لکھنے کا بہت شوق تھا مگر وہ ان دنوں باقاعدہ طور پر نا لکھ پایا۔ دسویں کا نتیجہ آیا اور اس کے پورے بورڈ میں تیسری اور سکول میں پہلی پوزیشن تھی۔ نتیجہ کی خبر نے سب کو حیران، مگر اسے اور اسکے خاندان کو بہت خوش کیا۔ اس نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا، اس کی ماں بھی بہت خوش تھی۔ یہ سب اس کی اس برکت اور محنت کا نتیجہ تھا کہ ایک دیہات کا رہنے والا ٹاپر بن گیا۔ کامیابی اور ناکامی بے شک اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے مگر انسان کو کوشش،دعا اور مستقل مزاجی سے کام کرنا چاہیے۔ یہی کامیابی کا راز ہے اور اس سے ہی کامیابی ممکن ہے۔