یہودیت سے تائب ہو کر مسلمان ہونے والے صوفی سرمد جن کا ’برہنہ رہنے‘ اور کلمہ پورا نہ پڑھنے‘ پر سر قلم کیا گیا
سرمد کاشانی مغل بادشاہ شاہ جہاں کے آخری عہد میں دلی آئے تھے۔ انھوں نے جامع مسجد کے مشرقی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس اپنا مسکن بنایا تھا۔ وہ اپنے وقت کے بہت مقبول صوفی تھے۔ آخری وقت میں وہ برہنہ رہنے لگے تھے اور کلمہ کا صرف ’لا الہ‘ یعنی ’کوئی خدا نہیں ہے‘ والا حصہ ہی پڑھتے تھے۔
مغلیہ سلطنت کے قاضی کی شکایت پر پورا کلمہ نہ پڑھنے کی پاداش میں اورنگزیب نے انھیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عصری کتب سے پتا چلتا ہے کہ بادشاہ عالمگیر اورنگزیب کے حکم پر جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے، چبوترے پر 1660 میں ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔

انھیں مغلیہ سلطنت کی تخت نشینی کی جنگ میں دارا شکوہ کی حمایت کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا یا ان کے صوفیانہ تصورات بادشاہ وقت کو پسند نہیں آئے۔ ممکن ہے کہ یہ سبھی وجوہات ان کی سزا کا موجب بنی ہوں۔
صوفی سرمد کا مزار اسی مقام پر بنا ہوا ہے جہاں انھیں کا سر قلم کیا گیا تھا۔ ہزاروں عقیدت مند اور مریدین اس مزار پر آتے رہتے ہیں۔ سرمد کی زندگی کے بارے میں عصری کتابوں میں بہت کم ذکر ملتا ہے۔ سرمد فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ ان کی رباعیات کا مجموعہ بھی موجود ہے۔
وہ یہودی مذہب اور صوفیانہ روحانیت کا امتزاج تھے۔ وہ آج کی تشریح میں کسی ایک مخصوص مذہب کے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ سرمد کو بھی دارا شکوہ کے ساتھیوں میں شامل کر لیا گیا۔ ثبوت کے طور پر دارا شکوہ کی لائبریری سے سرمد کا یہ خط مہیا کیا گیا۔ کبھی وجہ برہنگی کو جواز بنایا جاتا تو کبھی کہا جاتا کہ سرمد معراج کے منکر ہیں۔
اورنگزیب صرف برہنگی کے جواز پر سزا نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس دوران سلطنت کے قاضی کو یہ پتا چلا کہ سرمد جب کلمہ پڑھتے ہیں تو صرف ’لا الہ‘ پڑھتے ہیں اور اس سے آگے پڑھنے سے رُک جاتے ہیں۔ یہ بات مشہور ہو گئی تھی۔
قاضی قضاۃ ملا عبدالقوی نے جب اس کا سبب پوچھا کہ اس کے آگے کیوں نہیں پڑھتے تو سرمد نے جواب دیا ’میں ابھی نفی کی منزل تک ہی پہنچا ہوں۔ جب خدا کا دیدار کر لوں گا تو اثبات کے لیے پورا کلمہ پڑھوں گا۔ جس چیز کو دیکھا نہیں اس کا قرار کیسے کر لوں۔‘
اورنگزیب نے سرمد کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ جس وقت جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے ان کا سر قلم کیا گیا وہاں عوام کا ایک بے پناہ ہجوم سرمد کی آخری زیارت کے لیے موجود تھا۔
اب اسی مقام پر سرمد کا مزار ہے جو تاریخ کے اس عظیم کردار کی یاد دلاتی رہتی ہے۔