ایک وقت تھا کہ فرانس کا بادشاہ ننگا ہی دربار میں آ جایا کرتا تھا کیونکہ انہیں تمیز نہیں تھی۔ وزراء اور مشیر دربار ہی میں پردوں کے پیچھے پیشاب کر دیا کرتے تھے اسی بدبو کے خاتمے کے لیے پھر مصنوعی خوشبوؤں پر کا م کیا گیا پورے یورپ میں نہانے کو کفر سمجھا جاتا تھا اسی لیے یورپ کے لوگوں سے سخت بدبو آتی تھی۔ (کوپن بیگن جوکو ڈنمارک ) ڈنمارک کا دارالخلافہ ہیگن ہے آج بھی اس کے کئی گھروں میں نہانے کے لیے حمام نہیں ہیں .
اندلس میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والی ملکہ ایذبیلا ساری زندگی میں بس دو بار نہائی۔ اس نے مسلمانوں کے بنائے ہوئے تمام حماموں کو گرا دیا تھا مسلمان ہر روز نہاتے تھے اسی لیے اسے جسم کی یہ صفائی اچھی نہیں لگتی تھی۔ سپین کے بادشاہ فلپ ڈوم نے اپنے ملک میں نہانےپر مکمل پابندی لگا رکھی تھی اس کی بیٹی ایذ بیل ڈوئم نے قسم کھائی تھی کہ شہروں کا محاصرہ ختم ہونے تک داخلی لباس بھی تبدیل نہیں کروں گی اور محاصرہ ختم ہونے میں تین سال لگے اور غالباً اسی گندگی کے اثرات کے زیر اثر وہ مر گئی تھی۔یاد رکھئیے کہ یہ عوام نے نہیں مغرب کے بادشاہوں اور حکمرانوں کے معمولات تھے۔ جو تاریخ کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ جب مسلمان سیاح کتابیں لکھ رہے تھے جب ہمارے سائنسدان نظام شمسی پر تحقیق کر رہے تھے ان کے بادشاہ نہانے کو گناہ قرار دے کر لوگوں کو قتل کروا دیتے تھے جب لندن اور پیرس کی آبادیاں 30 اور 40 ہزار تھیں اس وقت اسلامی بادشاہ کی جانب سے فرانس کے بادشاہ لوائس چہارم کے پاس بھیجے گئے نمائدے نے لکھا کہ بادشاہ کی بدبو کسی بھی درندے کی بدبو سے زیادہ بوطفن ہے۔
اس کی ایک لونڈی جس کا نام موئنٹیس بام تھا بادشاہ کی بدبو سے بچنے کے لیے اپنے اوپر خوشبو ڈالتی تھی فرنچ پرفیوم بہت مشہور ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ پرفیوم لگائے بغیر پیرس میں گھومنا ممکن نہیں تھا۔ ریڈ ایڈین جب اہل یورپ سے لڑتے تو گلاب کے پھول اپنی ناک میں ٹھونس لیتے تھے کیونکہ اہل یورپ کی تلوار سے زیادہ ان کی بدبو تیز ہوتی تھی۔فرانسیسی مؤرخ کہتا ہے ہم یورپ والے مسلمانوں کے مقروض ہیں انہوں نے ہی ہمیں صفائی اور جینے کا ڈہنگ سکھایا انہوں نے ہی ہمیں نہانے اور لباس تبدیل کرنا سکھایا جب ہم ننگے ہوتے تھے اس وقت وہ اپنے کپڑوں کو یاقوت اور مرجان سے سجاتے تھے۔ جب یورپی لیسا نہانے کو کفر قرار دے رہا تھا اس وقت صرف قرطبہ شہر میں 300 حمام تھے ۔ ڈنمارک سے محمد اسلم علی پوری لکھتے ہیں کہ میں اپنے ایک یورپین دوست کے گھر بیٹھا تھا تو میں نے اسے بتایا کہ یہ تمہارے قالین بھی مسلمانوں سے آئی ہے
یہ جو ہم کافی پی رہے ہیں یہ بھی مسلمانوں سے آئی ہے یہ ہمسایہ روم اور شیمپو بھی ہمارا ہی تحفہ ہے یہ ہسپتال اور آپریشن بھی ہمارے ابوقاسم کی ہی تخلیق ہے سائنسی اور دوسرے علوم بھی ہم نے تمہیں دیے اس یورپی نے ہنس کے پوچھا کہ پھر ہمارا کیا ہے تو محمد اسلم علی پوری نے جواب دیا کہ اس وقت تمھارے پاس علم ہے اس کے حاصل کرنے کا تو ہمیں حکم ہوا تھا پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی اقراء یعنی پڑھو تھا ۔ ہمیں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت کا فرض ہے تم خوش قسمت ہو کہ تمھارے پاس علم کا خزانہ ہے تمہیں ہم سلام پیش کرتے ہیں ۔ جب ہم علم حاصل کر لیں گے تو ہم بھی انشاءاللَّلہ ترقی حاصل کر جائیں گے۔ یورپ نے اسلام کے سنہری اصولوں پر ہی عمل کر کے ہی ترقی کی ہے اور یہ حقیقتاً ناقابل تردید ہے اسی لیے تو اقبال نے کہا ۔
؎ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اور ابھی تو ہمارا یہ حال ہے کہ مغرب ہم سے ہماری سائنس ہمارا علم ہماری ترقی کے راز لے گیا اور ہمیں بدلے میں احساس کمتری دے گیا ہمیں فیشن نامی لفظ کے ساتھ بے ہودگی دے گیا ہمیں ماڈرن بنانے کے ساتھ بے حیائی دے دی ۔ ہم نے ان کی دی ہر اس چیز کا ویلکم Welcome))کیا جس سے ہم پوری طرح تباہ ہو سکتے تھے ۔ انہوں نے ہمیں آزادی کا نام اور ساتھ غلط تعبیریں دے دیں پھر ایسا ہوا کہ وہ چاند پر جا رہے اور ہم تفرقہ پرستی پر بحث کر رہے ہیں وہ مریخ کا سفر کر رہے ہیں اور ہم 1300 سو سال پہلے صحابہ کے مسلمان ہونے نہ ہونے پر بحث کر رہے ہیں انہوں نے سمندر میں پیٹرول کے ذخائر بنانے شروع کر دیے ہم نے پیٹرول سے جلاؤ گراؤ آگ لگاؤ کی تحریکیں چلانا شروع کر دیں
انہوں نے قرآن کو اپنی تحقیق کا حصہ بنا لیا اور ہم نے اچھے قیمتی غلاف بنانا شروع کر دیے انہوں نے عمر فاروق کی سادگی اپنا لی اور ہم نے قانون کی عیاشی کو اپنا مقصد حیات بنا لیا جب وہ اپنے بچوں کو زندگی کی حقیقت اور تاروں پر قمندیں ڈالنا سیکھا رہےہیں ہم سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں رٹے لگا کر فرسٹ ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن لینے کے گر بتا رہے ہیں اہل دانش سمجھتے ہیں کہ آئندہ جنگیں میدان جنگ میں نہیں کلاس روم میں لڑی جائیں گی اور آج ہم اپنی نئی نسلوں کو مادیت پرستی کی بھٹی میں جھونک کر صرف پیسے کو ترقی اور کامیابی کا استعارہ قرار دے رہے ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو جینا سیکھا رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے سے جیتنا سیکھا رہے ہیں ۔