حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ كُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، يُجْلِسُنِي عَلَى سَرِيرِهِ فَقَالَ أَقِمْ عِنْدِي حَتَّى أَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي،
فَأَقَمْتُ مَعَهُ شَهْرَيْنِ، ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” مَنِ الْقَوْمُ أَوْ مَنِ الْوَفْدُ ”. قَالُوا رَبِيعَةُ. قَالَ ” مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ ـ أَوْ بِالْوَفْدِ ـ غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ نَدَامَى ”. فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلاَّ فِي شَهْرِ الْحَرَامِ،
وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَىُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ، نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، وَنَدْخُلْ بِهِ الْجَنَّةَ. وَسَأَلُوهُ عَنِ الأَشْرِبَةِ. فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ، وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ. قَالَ ” أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ ”. قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
قَالَ ” شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ ”. وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ. وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ. وَقَالَ ” احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ ”.
ابوجمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھایا کرتے تھے- کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ- میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ بھی مقرر کر دوں گا ۔
تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا ۔ پھروہ مجھ سے کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے ( یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے ) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے ۔
پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انھوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا ۔
ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے خدا پر ایمان لاؤ- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ ( مسلمانوں کے بیت المال میں ) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا ۔
سبز لاکھی مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے ، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے ، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں ۔
حوالہ: صحیح البخاری 53
کتاب میں حوالہ : کتاب 2، حدیث 46
یو ایس سی-ایم ایس اے ویب (انگریزی) حوالہ: والیوم۔ 1، کتاب 2، حدیث 51
(فرسودہ نمبرنگ اسکیم)