How did the light bulb invented?

In تاریخ
April 23, 2022
لائٹ بلب

لائٹ بلب

ٹامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کئی کہانیاں سنائی جاتی ہیں ۔ اسے آج تک کی انسانی تاریخ کا عظیم ترین موجد قرار دیا جا تا ہے ۔ الجھے بالوں ،سلوٹ زدہ کپڑوں اور تھکے ماندے چہرے والا ایڈیسن ہر وقت کام میں کھو یار ہتا۔ وہ کبھی کبھار کچھ درشتی اور تکبر کا رویہ بھی اختیار کرتا ۔ مثلا ایک مرتبہ اسے تھوکنے کے لیے اگال دان پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ فرش پر تھوکنا زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ وہ ہرکہیں اور ہر وقت پاس ہوتا ہے ۔

ایک اور کہانی یہ ہے کہ اس نے “انکینڈیسینٹ” لائٹ بلب ایجاد کیا تھا۔ ایڈیسن سے پہلے بھی کئی لوگ یہ ایجاد کر چکے تھے (کچھ تو 30 برس پہلے بھی) لیکن کوئی بھی کارآمد نہ ہوئی ۔ اس کاکارنامہ ایک” کار آمد اور حقیقی بلب‘” ایجاد کر نا تھا ۔ انکینڈیسنٹ لائٹنگ میں ایڈ یسن کی دلچسپی کا آغاز 1878ء کے موسم بہار میں ہوا جب 31برس کی عمر میں وہ ایک ساتھی پروفیسر جارج بارکر کے ہمراہ چھٹی پر گیا۔ سیاحت کے دوران بارکر نے ایڈ یسن کو ( جو فوٹو گراف ایجاد کرنے کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا ) دیگر متعدد چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی تجویز دی کہ اب اسے امریکہ کے گھروں میں بجلی کی روشنی پھیلانے نے کا مقصد اختیار کرنا چاہئے ۔

یہ بات ایڈیسن کے دل کو لگی ۔ وہ” مینلو پارک “ نیویارک میں تعمیر کردہ اپنی “ایجادات کی فیکٹری” میں واپس آیا تو ماہرین کی ایک ٹیم جمع کی اور دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ وہ چھ ہفتوں کے اندراندرامریکہ کے گھروں میں روشنی کر دے گا۔ یہ پیشگوئی بہت رجائیت پسندانہ ثابت ہوئی ۔

ابتدا سے ہی ایڈیسن کے ذہن میں ایک ایسا بلب تخلیق کرنے کا منصوبہ تھا جو بہت کم کرنٹ سے بھی جل سکتا ہو، پائیدار ہو اور دوسرے بلبوں کے ساتھ مر بوط نہ ہو ۔ اگر ایک بلب خراب ہو جائے تو دوسروں پر کوئی اثر نہ پڑے اور ہر ایک بلب کو ایک سوئچ کی مدد سے آن آف بھی کیا جا سکے۔ چنانچہ ایڈ یسن اور اس کی ٹیم نے بلب بنانے کے ساتھ ساتھ ایک پورا نظام بھی وضع کرنے کی کوشش کی ۔انکینڈیسنٹ بلب ایک سادہ سا آلہ ہے اور اس کی تہہ میں کارفرما سائنس برقی مدافعت کے مظہر پر مبنی ہے ۔ ہرقی کرنٹ کو ایک میٹریل میں داخل کیا جا تا ہے جومختلف ڈگریوں پر اس کی مدافعت کرتا ہے ۔نتیجتاَ گرم ہو کر جلتا اور روشنی دیتاہے ۔

قبل ازیں بنائے گئے بلبوں میں بہت سے مسائل تھے لیکن دو مسائل نمایاں تھے ۔ برقی کرنٹ گزارنے کے لیے استعمال کیے گئے فلامنٹس حرارت کو برداشت نہ کر پاتے اور جل یا پگھل جاتے ۔ کھلی فضا میں تو یہ عمل چند سیکنڈوں یا منٹوں کے اندر اندر ہو جاتا۔ چنانچہ موجدوں نے فلامنٹ کوشیشے کے ایک گلوب میں ڈالا، اسے سِیل کیا اور اس میں سے آ کسیجن کو کھینچ لیا تا کہ خلا میں فلامنٹ حرارت کو زیادہ بہترطور پر برداشت کر سکے۔

ایڈیسن جانتا تھا کہ اسے ایک اعٰلی فلامنٹ تخلیق کرنا ہے ۔ اس کا بہت پتلا ہونا ضروری تھا تا کہ کرنٹ کی تھوڑی سی مقدار کافی ہو۔ ایڈ یسن اور اس کی ٹیم نے کامل فلامنٹ کی تلاش میں متعدد دھاتوں اور دیگر چیزوں کو آزمایا اور آخرکار پلاٹینئیم سے کام لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کانقطہ پگھلاؤ کافی زیادہ ہے.تقریباَ 3,191 ڈگری فارن بائییٹ ۔ ایڈیسن کی ٹیم کے دوسرے افراد نے شیشے کے گلوب میں سے آکسیجن نکالنے کے لیےکچھ بہترین طریقے بھی وضع کیے ۔

پلاٹینئیم فلامنٹ والا بلب موزوں ثابت ہوا، لیکن صرف 10 منٹ کے لیے ۔ اتناوقت جلنے کے بعد وہ بھی پگھل گیا۔ نیز پلاٹینئیم ایک کم یاب اور مہنگی دھات تھی ۔ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے تقریبا1600 میٹریلز کو آزمایا اور گلوب کے اندر سے آکسیجن خارج کرنے کے طریقوں کو بھی بہتر بناتے رہے مگر کوئی ایسی چیز نہ ملی جوان کا مقصد پورا کر سکے ۔

ایک روز ایڈیسن نے کاربن کو بطور فلامنٹ دوبارہ آزمانے کا سوچا۔ وہ ایک سال پہلے بھی ایسا کر چکا تھا مگر بعد میں ارادہ ترک کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ کاربن کا نقطہ پگھلاؤ 1ڈ گری فارن ہائیٹ یا 4,500 ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ ایڈیسن نے حساب کتاب لگایا کہ موزوں مدافعت کے ساتھ کام کر نے کے لیے فلامنٹ کو قطر میں 1/64انچ اور لمبائی میں6 انچ ہونا چا ہیے ۔ اس نے گیس لیمپوں کے شیشوں پرجمی ہوئی کالخ کھرچی، اسے رال (ٹار ) کے ساتھ ملایا تاکہ فلامنٹ کی شکل دے سکے ۔ اس فلامنٹ پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ ایک یا دو گھنٹے تک جل سکتا تھا ۔

لیکن ایڈ یسن قائل ہو گیا تھا کہ اگر یہ کاربن اتنی بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے تو ضرور کوئی اور ایسا میٹریل بھی ہو گا جو کاربن میں تبد یل کیے جانے پر اور بھی بہتر ثابت ہو ۔ یہ بات سوچ کر اس نے عام سوتی دھاگے کے ٹکڑوں کو آزمایا جنہیں بھٹی میں جلا کر کاربن میں تبد یل کیا گیا تھا۔ فلامنٹ بہت نازک تھا جسے لگانے میں بھی بہت مشکل ہوئی ۔ آخر کار تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد کرنٹ آن کیا گیا۔ یہ 21 اکتوبر 1879 کی رات کا واقعہ ہے ۔

یہ فلامنٹ توقعات کے برعکس ضائع نہ ہوا۔ اس کی روشنی موجودہ 100 واٹ کے بلب کی روشنی کے صرف ایک فیصد جتنی تھی ۔ یہ جلتی رہی اور جلتی رہی ۔ انجام کارایڈ یسن آہستہ آہستہ کرنٹ میں اضافہ کرتا رہا اور روشنی بڑھتی گئی، حتٰی کہ فلامنٹ ٹوٹ گیا۔ یہ 13.5 گھنٹے تک جلا تھا اور ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ مدھم سانتھا بلب الیکٹرک لائٹ کے دور کا نقیب ہے ۔

/ Published posts: 3239

موجودہ دور میں انگریزی زبان کو بہت پذیرآئی حاصل ہوئی ہے۔ دنیا میں ۹۰ فیصد ویب سائٹس پر انگریزی زبان میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ۸۰سے ۹۰ فیصد لوگ ایسے ہیں. جن کو انگریزی زبان نہ تو پڑھنی آتی ہے۔ اور نہ ہی وہ انگریزی زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔ لہذا، زیادہ تر صارفین ایسی ویب سائیٹس سے علم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنے زائرین کی آسانی کے لیے انگریزی اور اردو دونوں میں مواد شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جس سے ہمارےپاکستانی لوگ نہ صرف خبریں بآسانی پڑھ سکیں گے۔ بلکہ یہاں پر موجود مختلف کھیلوں اور تفریحوں پر مبنی مواد سے بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ نیوز فلیکس پر بہترین رائٹرز اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ جن کا مقصد اپنے ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

Twitter
Facebook
Youtube
Linkedin
Instagram