ذمہ دار انتظامی تقسیم کو سمجھتا ہوں ۔دنیا بھر کے تمام ممالک میں مختلف اقسام کی مختلف سطح پر انتظامی تقسیم دیکھنے کو ملتی ہے ۔اس کے بہت سے درج ہوتے ہیں پہلے درجے میں ہمارے ملک میں جو انتظامی تقسیم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کو صوبہ کہا جاتا ہے۔ جب کہ انڈیا میں ریاست کینیڈا میں ٹیریٹری جبکہ روس میں اوبجکٹس کہتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ تقسیم جغرافیہ کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔بعض اوقات کلچر یا زبان کی بنیاد پر اور بعض اوقات جغرافیہ کی بنیاد پر اور بعض اوقات انتظامی بنیادوں پر ہوتی ہے۔
اگر پاکستان کے دونوں اور اوٹونومس ریجن یعنی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو شمار نہ کیا جائے تو پاکستان اس وقت زبان کی بنیاد پر چارصوبوں میں تقسیم ہےجب پاکستان معرض وجود میں آیا اس سے پہلے برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی اور انگریزوں نے برصغیر کو سترہ صوبوں میں تقسیم کیا ہوا تھاجس میں سے دو صوبےمکمل طور پر اور دو جزوی طور پر پاکستان کے حصے میں آئےجب کہ انڈیا کے حصے میں 13 صوبے مکمل طور پر اور دو صوبے جزوی طور پر آئےاس طرح اینڈیا کے پندرہ اور پاکستان کے چار صوبے تھے۔ 74 سال میں ایک بلوچستان نیا صوبہ بنا جبکہ مشرقی پاکستان کا صوبہ پاکستان سے الگ ہوکر بنگلا دیش بن گیا اس طرح پاکستان کے پاس 74 سالوں کے بعد آج بھی چار ہی صوبے ہیں۔ جب کہ انڈیا کے صوبے 15 سے بڑھ کر 28 ہو چکے ہیں ۔جب کے 8 یونین ٹیریٹریز ان کے علاوہ ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی 23 کروڑ ہے اور اس 23 کڑوڑ آبادی کے ملک کو صرف چار صوبوں میں تقسیم کرکے چلانے کی ناکام کوشش کرنا اس ملک کے23 کروڑ لوگوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے مترادف ہے ۔ کیونکہ اتنے بڑے ملک کو صرف چار صوبوں کے ذریعے چلانا ناممکن ہے نہ تو تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے ۔ اور نہ ہی موجودہ دور میں ۔اگر اپنے مغربی ہمسایوں یعنی افغانستان اور ایران پر نظر ڈالی جائے تو ایران کی آبادی آٹھ کروڑ ہے۔ جس کو 31 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جب کہ افغانستان کی آبادی چار کروڑ سے بھی کم ہیں جس کو 34 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ وہ ملک جن کی آباد پاکستان کی آبادی کے قریب قریب ہے یعنی کے برازیل اور نائجیریا ان کے صوبے بھی پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔پاکستان میں مزید صوبے نہ بنانا۔ایک نئے سکوت ڈھاکہ کا انتظار کرنے اور پاکستان سے غداری کے مترادف ہے کیونکہ۔کیونکہ اگر صوبہ ضرورت سے زیادہ بڑے ہو تو ریاست صوبوں کے ہاتھوں بے بس ہوجاتی ہے۔اور وہی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ جن سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں یعنی بعد انتظامی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ملک میں آزادی کی تحریکیں اٹھتیں ہیں ۔اور آخر میں ملک 71 جیسی صورتحال سے دوچارہوتا ہے۔
اس وقت پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ12 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا تیسرا بڑا صوبہ بھی ہے ۔ 145 کروڑ آبادی والے چین کی 34 انتظامی تقسیموں میں سے صرف گوانگ ڈونگ واحد صوبہ ہے جس کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہے جو کہ پاکستان پنجاب کی 12 کروڑ آبادی کے مقابلے میں 12 کروڑ ساٹھ لاکھ ۔ جبکہ ہمارےمشرقی ہمسائے بھارت کے پاس 140کروڑ آبادی کہ باوجود صرف ایک ہی ریاست ایسی ہے جس کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہےجس کو اترپردیش کہتے ہیں۔یہ تقریبا ڈیڑھ ارب آبادی کے حامل ملک بھی فقط ایک ایک صوبہ ہی ایسا رکھتے ہیں جن کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اتنے بڑے صوبے یا ریاست نہیں بناتاجس کی آبادی کل آبادی کا ٪ 53 ہو۔
جس قدر نقصان کا سامنا اہل پنجاب کو پنجاب کی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے کرنا پڑھتا ہے شاید ہی کسی اور صوبے کے افراد کو ایسی نفرت کا سامنا ہو۔ جس طرح خیبر پختونخوا کے سیاستدان اہل پنجاب کو برا بھلا کہتے ہیں جس طرح بلوچستان میں پنجابیوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کے گلے کاٹیں گئے ۔شاید ہی ایسا سلوک کسی اور صوبے کے لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہوں۔چھوٹے صوبے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے لوگ ان کا حق کھاتے ہیں زیادہ تر پیسہ پنجاب پر لگتا ہےمگر حقیقت یہ ہے اگر پنجاب پاکستان کا٪ 53 ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اہل پنجاب کو کم بجٹ دیا جائے اور حکومت میں کم حصہ دیا جائے۔اگر پاکستان میں مزید صوبے بنائے جائیں خاص طور پر پنجاب کو تقسیم کرکےتو ممکن ہے اس نفرت کو ختم کیا جا سکے اور اہل پاکستان کے درمیان اخوت اورمحبت پیدا کی جا سکے۔اگر پنجاب کو مزید صوبوں میں تقسیم کیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ لوگ جو اہل پنجاب کے گلے کاٹتے تھے ان سے گلے ملے۔اور اہل پنجاب کو اپنا حاکم نہیں اپنا بھائی سمجھیں۔
پاکستان کی آبادی 74 سالوں میں 6 کروڑ سے 23 کروڑ ہوگئی مگر ابھی تک 4 ہی ہیں۔اس بات سے فرق نہیں پڑھتا کہ نئے صو بے زبان کی بنیاد پر بنائے جائیں یا انتظامی بنیادوں پر۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے صوبے جلد سے جلد بنائے۔ صوبے بنانا پاکستان کے حکمرانوں کی کبھی اولین ترجیح نہیں رہی مگر افسوس ان لوگوں پر ہے جو نئے صوبے کے نام پراقتدار میں آئے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو ان کے حقوق , ثقافت اور زبان کی حفاظت کی ذمہ داری دی اور پھر اپنے وعدے بھول گئے۔ویسے ہی جیسے سیاست دان الیکشن جیتنے کے بعد اپنے وعدے بھلا کرتے ہیں.ہم نے نئے صوبے بنانے کا وعدہ کرنے والوں کو ووٹ دے کر بھی دیکھ لیا مگر فقط دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ ہمارے سیاست دانوں کو ہدایت دے اور یہ نئے صوبے بنائے اور ملک کو ٹوٹنےسے بچائیں آمین۔