پاکستان تحریک انصاف حکومت جب سے آئی ہوئی ہے تو ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔شروع شروع میں تھوڑا تھوڑا اضافہ کررہا تھا اور اب یک دم اضافہ کر دیتا ہے۔اور اگر اشیاء کی قیمت میں اضافے کا وجہ پوچھے تو سارا ملبہ پچھلے حکومتوں پر گرا کر اپنے آپ کو بری ذمہ قرار دیتے ہیں۔ اب چونکہ مہنگائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے کوئی غذر تو پیش کرے گے۔ ہر چیز کی قیمت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے عوام پریشان جبکہ حکومت لاچار ہے۔ حکومت کے پاس مہنگائی کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ ایسے غلط معاہدے کیے گئے ہیں جس میں مہنگائی کرنا لازم ہو گیا ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے قوم کو اعتماد میں لینے کیلئے ایک اہم خطاب کیا تھا جس میں اعتماد کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ اعتماد میں لینے کیلئے آپ کو عوام کی بھلائی کے لیے کچھ کرنا ہوگا اور اس خطاب میں مہنگائی کو روکنے کے اقدامات کم جبکہ مہنگائی آنے کے پیشنگوئیاں زیادہ بیان کئے گئے تھے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں حکومت ناکام ہوگیا ہے۔ عمران خان نے تو 120 ارب روپے کی ریلیف پیکج کا اعلان کیا لیکن آج اس نے 8 روپے کی قیمتوں میں راتوں رات اضافے کا اعلان بھی کیا۔چینی کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے اور اسی طرح پشاور اور کوئٹہ میں فی کلو چینی کی قیمت 150 روپے، کراچی اور اسلام آباد میں 145 روپے، حیدرآباد میں 160 اور لاہور میں 140 روپے کی ہوگئی۔ اسی حکومت نے باہر سے چینی منگوانا بھی بند کردی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ باہر ملکوں کی چینی بہت زیادہ مہنگی ہے۔ مزید حکومت نے کہا کہ اس ماہ میں گنے کی کرشنگ شروع ہوجائے گی۔ تو چینی بازار کو آئے گی اور ہوسکتا ہے کہ پھر سستی ہوجائے یعنی مطلب یہ کہ چینی اب سستی نہیں ہوگی ہوسکتا ہے اور قیمت میں اضافہ ہوجائے گا۔
اب پورے پاکستان میں شوگر ملز کے ساتھ صرف اور صرف چار دنوں کے اسٹاک موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر بےبس کا اظہار کیا جو اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ خان صاحب صرف اور صرف اپنا وقت پاس کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ شوگر ملز کو اب تک 40 ارب کا جرمانہ کیا گیا ہے۔ اگر واقعی حکومت نے ان کو جرمانہ کیا گیا ہے تو اس جرمانے کی وصولی ہوئی ہے کہ نہیں اور اگر وصولی ہوئی ہے تو وہ کہا خرچ ہوۓ۔ بس صرف اور صرف کاروائی کاغذ اور میڈیا تک محدود کی گئی ہے۔ کیا جھانگیر ترین کو سزا دی گئی؟ کیا خسرو بختیار کو سزا دی گئ؟ نہیں اور دوسری طرف خان صاحب نے کہا کہ جس نے کرپشن کیا ہے میں اس سے ہاتھ تک نہیں ملاتا کیونکہ اگر میں کرپٹ سے ہاتھ ملاتا ہوں تو میں یہ تسلیم کردیتا ہوں کہ کرپشن بری چیز نہیں ہے۔
دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار حسب روایت پچھلے حکومتوں کو قرار دیا۔ موصوف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ سٹے کی وجہ سے ہوا۔ سندھ زرداری کے شوگر ملز ہے جبکہ پنجاب میں شریف فیملی کے شوگر ملز ہے تو ان کو پکڑیں اور سزادے۔ اسی خیبرپختونخوا کے وزیر خوراک عاطف خان نے یہ عوام کو دلاسہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ اگلے ہفتے کو چینی کی قیمت 150 روپے سے کم ہو کر 90 روپے تک ہوجاۓ گی جو کہ ناممکن ہے۔
اکتوبر کو وزیراعظم عمران خان نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ چینی مافیاء پر ہاتھ ڈالا ہے اور اب چینی مہنگی ہونے کی بجائے اب اور سستی ہوجاۓ گی۔ لیکن خان کے کاروائی نے کوئی اثر نہیں کی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں شوگر ملز نے عوام کی جیب سے 265 ارب روپے نکال چکے ہیں اور اس سال بھی 10 شوگر ملز نے 67 ارب روپے عوام کی جیب سے نکال چکے ہیں۔ مزید حکومت کا کہنا ہے کہ باہر ممالک سے نہیں منگوائیں گے کیونکہ وہ بہت زیادہ مہنگی ہے۔ اسی ماہ میں اپنے ملک چینی بننا شروع ہوجائی گی اور تب تک چینی نہ کھایئے اور انتظار فرمائیے۔