نواسہ رسول کی شہادت کے بعد اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کیا گیا- نبی کی بیٹیوں کو بے پردہ کر کے کوفےاور شام کی طرف لے جایا گیا -آگے آگے فوج یزید ناچتی ہوئی جا رہی ہے اور پیچھے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ،قید ہو کر ،بے یارومددگار ہو کر جارہی ہیں- فوجِ یزید کے ہاتھ میں تمام شہیدوں کے کٹے ہوئے سر تھے اور وہاں بغیر سر کے زمین کربلا پر جسم مبارک بکھرے ہوئے تھے- تاریخ نے کہہ دیا کہ بغیر کفن و دفن کے تین دن تک رسول اللہ کے خاندان کے جسم مبارک زمین کربلا پر بکھرے پڑے تھے
تیرہ محرم، 61 ہجری کو جب آس پاس کےلوگوں نے یہ معلوم کیا کہ فوج کا پہرہ کم ہوگیا ہے چلو نہر فرات سے پانی بھر کے لاتے ہیں- بنی اسد کی کچھ عورتیں جب نہر فرات سے پانی بھرنے لگیں تو دیکھا کربلا کی زمین پر جسم مبارک بکھرے ہوئے ہیں-کہیں کسی کا بازو،کہیں کسی کا جسم-انہوں نے جب اس عالم کو دیکھا تو روتے روتے اپنے مردوں کے پاس پہنچیں اور روتے چیختے پکارنے لگیں “اے رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والو، اس زمین کربلا پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان تھا -شاید یزید کی فوج نے انہیں شہید کر دیا ہے، ان کے جسم مبارک بکھرے ہوئے ہیں-ان کے خیام جلے ہوئے ہیں .چلو آؤ ان کی تدفین کرتے ہیں-ان کے مردوں نے کہا پاگل ہو گئی ہو کیا ؟دیکھتی نہیں ہو کہ یزید کی فوج نے قتل کیا ہے- اگر ہم ان کی تدفین کریں گے تو ایسا نہ ہو کہ یزید ہمارا بھی دشمن بن جائے -چھوڑ دو کوئی نہ کوئی آئے گا تدفین کر دے گا -ان عورتوں نے کہا تعجب ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہو، رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہو اور ان کے نواسوں اور ان کی بیٹیوں کے لئے یہ محبت رکھتے ہو؟کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ
میں اجر رسالت کچھ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میری آل سے محبت کرو، محبت کرو
اگر تم نہیں جاتے تو نہ جاؤ ہم جائیں گے اللہ کے نواسے کی تدفین کرنے-جب بات یہاں تک پہنچی تو مردوں میں سے کچھ کی غیرت جاگ گئی اور وہ ان عورتوں کے ساتھ زمین کربلا پہنچے -بس ان کا زمین کرب وبلا پرپہنچنا تھا- دیکھتے کیا ہیں کہ کسی کے جسم مبارک کا بازو نہیں تو کسی کے جسم پر سر نہیں،وہ سوچ میں پڑ گئے کہ کیسے تدفین کی جائے-آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک بڑی سے قبر کھودتے ہیں اس میں سب لاشوں کی اکٹھی تدفین کر دیتے ہیں-ابھی وہ قبر کھود ہی رہے تھے کہ اتنی دیر میں معجزے سے ایک گھڑ سوار آیا- انہوں نے سمجھا شاید کوئی فوجی ہے- اس سے پوچھنے لگے کہ تم کون ہو؟ تو گھڑ سوارآبدیدہ ہوکر کہنے لگا،”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کا بیٹا علی زین العابدین ہوں”- سب کی آنکھیں بھر آئیں-امام زین العابدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبا بچھائی اور زمین کربلا سے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کو چننا شروع کر دیا- کہیں سے امام حسین کی انگلی ملتی ہے ،کہیں سے امام حسین کے جسم مبارک کا کچھ حصہ ملتا ہے، کہیں سے پاؤں ملتے ہیں، کہیں سے کندھوں کا گوشت ملتا ہے-اس منظر کو فرحان علی نے بہت دکھ اور کرب کے ساتھ ایسے بیان کیا ہے
امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ان ٹکڑوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبا میں جمع کرتے ہیں اور ایک جگہ زمین کو کھودتے ہیں تو وہاں پہلے سے ہی قبر بنی ہوتی ہے -امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس قبر میں تدفین کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے بھائی علی اکبر اور علی اصغر کو بھی دفن کرتے ہیں- اس کے بعد ایک بڑی سی قبرکھود کر دوسری تمام شہیدوں کو دفن کرتے ہیں-اسی لیے اس جگہ کو” گنجِ شہیداں” کہا جاتا ہے- جہاں سب کی اجسام مبارک ایک ساتھ دفن ہیں- بس جب سب شہیدوں کی تدفین ہو چکی تو کسی نے کہا ایک تدفین رہ گئی، یہ دیکھو ایک بوڑھا سا صحابی ہے ان کو ہم نے دفن نہیں کیا-امام زین العابدین آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ حبیب بن مظاہر ہے اللہ یہ چاہتا ہے کہ ان کی لاش ایسی جگہ دفن ہو جہاں جب بھی کوئی امام حسین کے پاس آئے تو ان کو سلام کرکے آئے- پھر آپ نے جناب حبیب کو تدفین کیا-
سب جانے لگے تو امام سجاد نے کہا رکو ایک تدفین ابی بھی رہتی ہے- سب نے کہاکچھ نظر نہیں آتا- امام سجاد نے فرمایا نہر فرات کی طرف چلو- جب آگے بڑھنے لگے توایک بازو نظر آیا اور آگے بڑھے تودوسرا بازونظر آیا- بس تھوڑا آگے چلنا تھا کہ جناب ابوالفضل عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم مبارک نظر آیا – جناب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی جگہ دفن کر دیا جہاں وہ گھوڑے کی زین سے زمین پر آئے تھے- آج بھی قبرعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قبرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں- سلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنبے پر ،سلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں پر، سلام ہو ان غریبوں پر جن کی جسم مبارک تین دن تک بے گوروکفن رہے