اس بات میں قطعاً شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ جاندار کی تصویر شرعاًحرام ہے -اور اس پر نصوص قطعیہ‘احادیث صحیحہ وحسنہ کتاب وسنت میں موجود ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا:
”بے شک اللہ کے ہاں انسانوں میں سے سخت ترین عذاب کے مستحق تصویر بنانے والے ہوں گے۔ “
سعید بن ابی الحسن فرماتے ہیں :میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ان کے پاس ایک آدمی آیا۔اس نے کہا اے ابن عباس میں ایسا انسان ہوں کہ میری معیشت میرے ہاتھ کی کاریگری ہے اور میں تصاویر بنانے میں ماہر ہوں ۔عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں وہی حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس آدمی نے کوئی تصویر بنائی بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ اس میں روح پھونک دے اور وہ اس تصویر میں کبھی بھی روح نہیں پھونک سکے گا۔
“یہ بات سن کر اس کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ بلکل زرد پڑ گیا۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا‘کم بخت ! اگر تونے تصویر ہی بنانی ہے تو درختکی بنا،جمادات کی بنا،جن میں روح نہیں ہے ۔ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جاندار کی تصویر بنانا شرعاًحرام ہے اور مصور کو قیامت کےدن شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا -اس حوالے کی دیگر احادیث کے لیے راقم کی کتاب”ٹی وی معاشرے کا کینسر“ملا حظہ ہو۔
اور ایسی جگہ جہاں تصاویر آویزاں کی جائیں وہاں پر عبادت کرنا مناسب نہیں ۔سید نا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ میں داخل ہونے سے انکار کردیا- اس میں (مشرکین)کے معبود اور بت تھے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انہیں نکال دیا گیا -اس میں سے ابراہیم واسماعیل علیہ السلام کی تصاویر بھی نکالی گئیں ان دونوں کے ہاتھوں میں تیر تھے۔
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو تباہ وبرباد کرے یقینا انہیں علم ہے کہ ابراہیم واسماعیل علیہ السلام نے تیروں کے ذریعے سے کبھی بھی فال نہیں نکالی -پھر آپ صلی اللی علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے- آپ نے اس کے مختلف کونوں میں اللہ اکبر کہا اور باہر تشریف لےآئے- اور آپ نے اس میں نماز نہیں پڑھی۔حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں: اس حدیث سے تصویروں والے مکان میں نماز ادا کرنے کی کراہت معلوم ہوتی ہے اس لئے کہ اس جگہ شرک کا گمان ہے اور امتوں میں کفر اکثر تصویروں کی جانب سے ہی داخل ہوا ہے
حافظ ابن القیم الجوزیہ علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں:”شیطان نے عیسائیوں کے ساتھ جوکھیل کھیلے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ گرجا گھروں میں تصویریں رکھیں اور ان کی عبادت بھی کی۔آپ عیسائیوں کے گرجا گھروں میں سے کوئی گرجا گھر بھی مریم علیہ وعیسی علیہ السلام ‘جرجس‘بطرس وغیرہ جو ان کے ہاں قدسی شمار ہوتے ہیں کی تصویرسے خالی نہیں پائیں گے اور ان کی اکثریت تصویروں کو ہی سجدہ کرتی،ان سے مدد مانگتی اور انہیں اللہ کے سوا پکارتی ہے ۔
“مذکورہ بالاواقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر بنانا قطعی حرام ہے‘ اور انہیں عبادت گاہوں میں آویزاں کرنا عیسائیت کی تلبیس ہے- اور جس جگہ تصاویرآویزاں ہو‘وہاں عبادت کرنا ہرگز درست نہیں ۔البتہ رہی یہ بات کہ تصویر ہماری جیب میں بھی ہوتی ہے تو کیا اس سے نماز میں خلل واقع ہوتا ہے یا نہیں ۔اس کے بارے میں چند ایک باتیں قابل توجہ ہیں۔1
۔نوٹوں اور سکوں پر تصاویر حکومت شائع کرتی ہے اور وہ اس کی ذمہ دار ہے اور اللہ کے ہاں جوابدہ ہوگی۔2۔ان نوٹوں اور سکوں کو اس ملک میں رہتے ہوئے استعمال کرنا ہماری مجبوری ہے کیونکہ ہر قسم کی خریدوفروخت کا دارومدار انہی نوٹوں اور سکوں پر منحصر ہے ۔3۔اگر عبادت کے وقت مساجد وغیرہ میں انہیں باہر نکال کر رکھیں تو دولت کے ضیاع کا قوی اندیشہ ہے ۔شریعت اسلامی میں اضطراری کیفیت میں حکم شرعی تبدیل ہوجاتا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے :”جو شخص مجبور ہو بغاوت کرنے والا اور حد سے بڑھنے والا نہ ہو اس پر حرام کھانا گناہ نہیں۔“
لہٰذا جیب میں نوٹ اور سکے ایک تو پوشیدہ اور چھپے ہوتے ہیں‘عبادت کے وقت سامنے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عبادت میں خلل واقع نہیں ہوتا- اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ہماری مجبوری ہے- اور باامر مجبوری گناہ نہیں- لہٰذا بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جیب میں اگر روپے ہوں تو نماز ادا کرنے میں خلل نہیں -کیونکہ تصاویر اگر سامنے یا عبادت والے کمرے میں آویزاں ہوں تو وہاں نماز ادا نہیں کرنی چاہئے تا وقتیکہ اس مکان یا کمرے کو تصاویر سے پاک نہ کر دیا جائے ۔