یہ ایک طوائف کی کہانی ہے۔ جس پر پورا شہر مرتا تھا
مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماشبین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔
مجرے کے اختتام پہ جب سب تماشبین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ میں دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔ بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کر میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ اس کی ضرورت پوری کرکے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر اور برف کی مانند سفید تھا ایسے سفید جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا کر رہ گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی ” ماں مر گئی۔ “کیا”؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کےلئے میں اس کے پاس آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔ “تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماشبین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ تم ایدھی فاونڈیشن سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔ اتنا کہہ کر وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔ میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ میں نے کہا کہ میں تمہاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔ وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔
گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لئے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اس کو تسلی دینے کےلئے الفاظ بھی نہیں تھے۔ کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اس کی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا. آدھی رات ہونے کو تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بےقرار تھا اور پھر وہ اس کی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔ یہ بلبل کا بچہ تھا۔ یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔ چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور ایک پرانی کرسی اٹھا لائی۔
“سیٹھ جی ! معذرت. میرے گھر میں آپ کو بٹھانے کےلئے کوئی چیز نہیں ہے وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔ میں اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔ تمہارا اصل نام کیا ہے بلبل؟ ” بالآخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔ “افشاں” میں نے دھیرے سےکہا “بہت افسوس ہوا تمہاری ماں کی وفات کا۔ وہ خاموش رہی۔ میں نے پوچھا کہ تمہارا باپ، بھائی کوئی ہے؟ اس نے خاموشی سے “نہیں” میں سر ہلایا۔ میں نے پھر پوچھا یہ بچہ تمہارا ہے؟ اس نے پھر خاموشی سے “ہاں” میں سر ہلایا۔ میں نے پوچھا تمہارا شوہر کہاں ہے؟ وہ چند لمحے خاموشی کے بعد بولی کہ وہ مجھے چھوڑ گیا۔ میں نے پوچھا کہ تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟ اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، “سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے۔ اور ساتھ میں تماشبینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کر اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور ایک بھرم قائم ہے۔
سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بےسہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہوکر یہ قدم اٹھاتی ہیں۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کےلئے ڈوب جاتی ہیں۔ ” یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بےبسی اور بےچارگی صاف نظر آرہی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔ میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پاکٹ سے کچھ پیسے نکالے اور اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا “كل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کےلئے کچھ خوارک اور گھر کےلئے راشن پانی لے لینا۔” وہ اتنے سارے پیسے ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہوگئی۔ “کیا ہوا؟” میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔ “سیٹھ جی مجھے ان پیسوں کے بدلے کیا کرنا ہوگا؟”
وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ان پیسوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟ اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ کاش زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بےحس معاشرے میں ایک تنہا اور بےسہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔
میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، “تمہیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہوگی۔ ہر مہینے تمہیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمہاری گود میں ہے اسکی تربیت ایسے کرو کہ یہ ایک دن بڑا ہوکر تمہارا سہارا بن سکے۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمہارا بیٹا جوان ہوجائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کردینا۔ افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بےآواز رو پڑی۔ مجھ سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہوا۔ میں سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ “افشاں مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے۔ جو کچھ تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔”
اس واقعے کے بعد میں تمام برے کاموں سے توبہ کرکے اللہ کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لئے حاضر ہوا۔ ہر روز اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اللہ سے معافی کی درخواست کرتا۔ میں باقاعدگی سے ہر ماه افشاں کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی اپنی شیطانی ہوس کےلئے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہوگئی ہوگی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہوگیا ہوگا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہوگا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہوگا کہ نہیں؟ میرے بچے جوان ہوگئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اس کے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ ملازم نے کہا معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔ میں نے کہا اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔ کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔ ایک عورت سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لئے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔
سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد۔ جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔ افشاں نے پوچھا کہ آپ مجھے پہچان گئے ناں؟ میں نے “ہاں” میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر بولی۔ احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمہاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمہاری پڑھائی کا تمہیں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں۔ میں ان کو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام تک پہنچانے میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔
سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بےسہارا اور بےکس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔ میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔ آج اس کو پکارتے ہوئے بےاختیار میرے منہ سے افشاں بہن کا لفظ نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہی سچ تھا۔ افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر ایک پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی۔ سیٹھ جی اس ڈائری میں وہ تمام حساب درج ہے۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے ایک ایک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیئے گئے پیسوں کو امانت کے طور پر استعمال کرکے اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ آپ پر قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمہارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی۔ سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دیئے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے کہ آپ انکار مت کریں۔ میں افشاں کو بڑی حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقینا قول و قرار کو نبھانا اور وعدے پر قائم رہنا ایک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔
یہ سب سن کر میرے دل میں اس کی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔ میں نے جواب دیا کہ افشاں بہن میں نے تم کو بہن کہا ہے تو میں اپنی بہن سے کیسے پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔ میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننی پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اس کو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کرکے وہاں سے چلے گئے۔
“ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ ” شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔”کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟” بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ “میں نے اپنی بیٹی روبی کےلئے ایک لڑکا پسند کیا ہے۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔” میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔ اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر گئے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہوگیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔
یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں کو ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔