پچھلے سال انہی ایام میں ادارہ رحیمیہ لاہور کے سالانہ دورہ تفسیر کےلیے لاہور جانا ہوا۔ 6 جنوری کو لاہور پہنچا۔ ادارہ پہنچتے ہی ایک الگ ماحول نظروں کو منتظر ملا۔ کم وسائل کی ایسی بل ترتیب استعمال کہ جسکو عمل میں لانے کےلیے شاید یہاں حکومتی کابینہ سے رجوع کیے بنا اور عوامی ٹیکس کو استعمال میں لائے بغیر ممکن نہ ہو۔ مگر ادارے کے ممبران کی تخواہوں سے ایک چھوٹی سی فیصد پر ہی ایسا عظیم شاہکار منظم کیا گیا کہ جسے واقعی میں امام سندھی کی معاشی نکتہ سنجیوں کا ترجمان کہا جاسکتا ہے۔ ادارے کے سربراہ کی اپنی ملکیت معاشرتی تحویل میں مہیا تھی، رہن سہن کا شاندار ماحول تھا، کھانے کا ایسا انتظام تھا کہ تمام دسترخوان نشست اچھی طرح سیر ہو جاتے اور اختتام میں کچرادان کی کجا ضرورت باقی نہ رہتی۔ الغرض اسلامی معاشیات کی ایک جیتی جاگتی صورت تھی جو ہر آن نظر آتی تھی۔
اسکے علاوہ دینی فضا اور روحانی ماحول الگ سے میسر تھا۔ سحر کا آغاز موذن آذان کی روح پرور بلاوے سے بجانبِ خدا کرتا تو تمام افراد بستر کو خیر آباد کہتے۔ وضو کرکے صف آراء ہوتے اور نماز میں عالمِ مثال سے اتصال کی کوشش دورِ فتن میں کرنے لگتے۔ نماز سے فراغت پر کلام اللہ کھولتے اور حقائقِ اتم میں غوطہ زن ہوتے۔ پھر کیا دیکھتے کہ قدیم سے جدید کا، پستی سے بلندی کا اور زوال سے عروج کا ایک پورا سمندر سامنے “قرآنی تفیسر” کی صورت میں امڈ پڑتا۔ یہاں سے جنون کو پرواز بخشنے کے بعد چائے کا دور چلتا جسمیں محمود و ایاز کا کوئی پتہ نہ چلتا اور سربراہ و راہرویان ایک ہی دسترخوان پر بمثلِ پرانے رفیقوں کے جمع ہوجاتے۔ چائے نوشی کے بعد امامِ تمام حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری کی ہمراہی میں جناح باغ لاہور میں سیرِ صبح کےلیے نکلتے، جہاں نسیم کی سرگوشی میں جب پرندے چہچاتے اور درختوں کے پتوں سے غمازی کرنے لگتے تو ساتھ میں موجود قدرت کے شارح گویا اپنے علوم سے اسکی تشریح کرکے ہمیں سربستہ رازوں سے آگاہ کرتے اور “فلسفہ جمالیات” گویا پڑھا ہی نہیں لیتے تھے بلکہ پلا لیتے تھے اور ہم بمثل مئی پی کر پُرخمار ہوجاتے، پھر نظر کے سامنے خیام ہیچ لگنے لگتا اور من ترانہِ منصوری گُنگُنانے لگتا۔
چلتے چلتے باغ میں سیر ہی نہیں کرتے، بلکہ بیک وقت روح کو سمتِ راست مہیا کرتے، مادہ کو نشان نقد بناتے، اقوامِ عالم کی سیاحت کرتے، موجودات سے غیوب پر قیاس کرنے کی آس کرتے، سوشلزم کو چھیڑتے، سرمایہ داریت کو توبہ تائب کراتے اور آخر کار اختتامِ سیر پر دروازے سے نکلتے وقت اسلام کو راہِ نجات جانتے۔ اسکے بعد سیدھ سبیل لےکر ادارے آتے اور چند ضروری وقفے کے بعد درسِ “صراط مستقیم” میں پہنچتے۔ جہاں پھر سے “باطل کو حق سے الگ کرتے اور حق کو خالص چھوڑتے۔” درس سے فراغت پر کھانے کا وقت ہوتا، پھر تمام کا تمام ادارہ ایک ہی دسترخوان پر جمع ہوتا، مجال ہے جو کسی کی آسائشی لحاظ ہو اور بڑےپن کی بنیاد میں امتیازی سلوک ہو بلکہ وہاں تو سرے سے کوئی بڑا پنہ تھا ہی نہیں۔ کھانے کے بعد قیلولہ، اِسکے بعد نمازِ ظہر پھر درسی سرگرمیاں، پھر نمازِ عصر اور عصر کے بعد چائے پر سوال و جواب کا دور۔ سب کچھ اپنی مثال آپ تھا اور چائے پر سوال و جواب کا طریق تو بینظیر تھا، کوئی بھی کچھ بھی کہ لیتا، ادارے پر سوال ہو یا طرز عمل پر تنقید نما استفسار، جواب ہمیشہ جذباتیت سے پاک، دلیل کی صورت میں ہی ملتا۔ چائے کے بعد “ذکر” کا وقت ہوتا، ذکر بھی ایسی کہ جو فکر کے ہم معنی تھی۔ اسکے بعد نمازِ مغرب، پھر درس اور نمازِ عیشا اور اسکے بعد اکابرین قدماء کے کتب کا درس خصوصا حضرت امام ولی اللہ دہلوی، انکے خاندان اور قاسم العلوم حضرت نانوتوی رح کی کتب ہوا کرتی تھی۔ یہ درس ادارے میں تین سال سے قیام پزیر طلبہ کےلیے ہوتا تھا مگر بندہ پست قامتی کے باوجود بڑے اہتمام، انہماک اور شوق سے بیٹھتا اور دامن آگاہی کو وسعت بخشتا۔
اس درس پر ہی دن بھر کی سرگرمیوں کا اختتام ہوتا اور سب بجانبِ بستر بڑھتے۔ وہاں سونے سے قبل گویا ایک دور دن بھر کی سرگرمیوں کا ذہن میں لازم کرتے اور میرے جیسے انجان تو لازما ورطہ حیرت میں ہوتے کہ بلا یہ ماحول بشمولِ اسکے تمام جزائیات کے دور حاضر میں ممکن بھی ہے!؟ خودکلامی کے بعد سونے کا بھی الگ ہی مزہ ہوتا اور تمام رات گویاں ایک اور ہی جہاں میں بسر ہوجاتی، صبح موذن کی آواز پر یہ سلسلہ ٹوٹتا اور پھر انہی سب کی دورائی ہوتی جو گزرے ہوئے کل کر چکے ہوتے۔
الغرض ایسے ہی ماحول میں دو ہفتے بسر ہوئے۔ اس دوران ادارے کے سربراہ اور خانقاہ رحیمیہ کے سرپرست حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے استفادے کا موقع ملا اور ان سے ذہنی تشنگی مختلف نشست میں دور کی۔ بےڈنگ سوال کیے، تسلی بخش جواب پائے۔ کچھ الگ محسوس کیا، کچھ نیا دیکھنے کو ملا۔ اور رخصت ہوتے وقت یقین ہوا کہ مذہبی حلقوں میں شدت پسندی کو ختم کرنے اور بنیاد پرستانہ خیالات کی بجائے حقیقت پسند اور جہان آشنا بنانے کےلیے اگر کوئی طریق کاریگر ثابت ہوسکتا ہے تو واحد ادارے کا ہی طرزِ عمل ہے۔
مکار سیاست کی تمام جانکاری اور اس سے بےنیازی، سرمایہ پرست معیشت کی مکمل آگاہی اور اس سے پہلو تہی، تقسیم در تقسیم سماج سے ذاتی فائدے بٹورنے کے تمام نسخوں کا علم اور پھر بھی وحدت کےلیے کوشاں___ دراصل یہ وہ تمام پہلو تھے کہ جس نے مجھے ایک گونہ حیرت میں ڈال دیا تھا اور گمان کرنے لگا کہ اگر وہ میدانِ عمل میں ہوتے تو اندھے مقلدین کو اکٹھا کرنے کی رائج الوقت طریق پر شاید سب سے باری لے جاتے، مگر انکا آئیڈیل سامراجیت و استحصالِ مذہب نہیں بلکہ حقیقی اسلامی تعلیمات ہی تھے اور اسکے علاوہ کچھ کرنا تو درکنار سوچنا بھی انکے لیے مرگ تھا۔ شعور انکی زندگی اور علم انکا ذریعہ زیست تھا۔
پندرہ دن کے طویل قیام کے بعد یہاں سے بوقت رخصتی حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری صاحب سے ٹیلیفون ارتباط اور مذید اشکالات دور کرنے کا اگرچہ عہد و پیمان ہوا مگر ہماری کیفیت پھر بھی وہ شاعر والی بنی، جو کہہ گئے
تد اویت من لیلٰی بلیلٰی عن الھوی
کما یتداوی شارب الخمر بالخمر
( لیلی کی جدائی کے غم نے محبت کے راستے میں مجھے جس بیماری سے دوچار کردیا ہے، اسکا علاج وصلِ لیلی کے علاوہ ممکن نہیں، جیسے ایک عادی شرابی شراب پی کر اپنی تسکینِ خاطر کا سامان کیا کرتا ہے۔)