مسجد اقصیٰ جو کہ مقبوضہ مشرقی زیرو نظم کے پرانے شہر میں واقع ہے وہاں اسرائیل پولیس نے جمعہ کے روز مسجد کے اندر مسلمان نمازیوں پر حملہ کیا۔
کچھ نے فلسطین میں یہ بیان دیا کہ اس واقعے کے دوران تقریبا 53 فلسطینی حرم الشریف کے اندر زخمی ہوگئے۔ مذہبی خرافات کے عہدے دار نے ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیل پولیس نے اچانک دستی بم اور گیس بم کے ذریعے مسلمان نمازیوں کو حرم شریف کے اندر منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مسجد القبیلین جو کہ مسجد اقصی میں موجود ہے وہاں نماز پڑھنے والے نمازیوں پر پر تیز دستی بموں اور ربڑ کی گولیوں سے حملہ کیا، فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلی پولیس پر پتھراؤ اور شیشے کی کی بوتلوں کے پتھراؤ سے حملہ کیا۔ یہاں تک کہ یہ جھگڑا جو کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تھا الاقصی کے ایک اور دروازے جو کہ باب سلسلہ کہلاتا ہے وہاں سے وہ مسجد میں داخل ہونا چاہ رہے تھے۔
اسرائیل جس نے دمشق اور ایس ساحیر کے دروازوں کے سامنے فلسطینیوں پر حملہ کیا اس سے بچوں اور خواتین میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ انہوں نے مسجد میں مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ وقفوں سے اپنی مداخلت جاری رکھی جب کہ مسلمان رمضان المبارک میں رات کو خصوصی نماز تراویح ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مسجد اقصی کے ڈائریکٹر شیخ عمر الکسوانی نے اسرائیلی پولیس کو اپنے حملوں کو روکنے اور مسجد کے صحن سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔ ۔مرکزاطلاعات فلسطین کے نمائندے کے مطابق تقریبا 330 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے اور کم از کم 250 لوگوں کو کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ایک شخص جس کے سر پر گولی لگی ہے وہ بہت ہی منا ساز حالت میں ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق ق2 اور لوگ بہت ہی نازک حالت میں ہیں۔ پولیس کے مطابق 21 پولیس آفیسرز انتہائی زخمی ہیں۔
کم از کم 21 فلسطین اس حملے کے دوران مارے گئے ہیں جن میں بچے بھی شامل تھے۔ اسرائیل جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ فلسطین کی زمین پر اپنا قبضہ جما لے جس کے لیے روز بروز اسرائیل فلسطین پر بے انتہا ظلم کر رہا ہے۔اسرائیل کے فلسطین پر اس ظلم کر وزیراعظم عمران خان نے سخت مزاحمت کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ رمضان المبارک کے اس پاک مہینے میں قبلہ اول اسرائیلی حملہ انسانیت، اور عالمی قوانین کی توہین ہے۔ اور فلسطینی برادری کے جائز حقوق اور تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ یہودیوں کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور مسلمان ظلم کے خلاف پورے جدوجہد کے ساتھ لڑیں۔
شکریہ!
تحریر: بریرہ عارف