کئی دہائیوں سے دنیا میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں، جنہیں 1886 میں ایک جلسے کے دوران قتل کر دیا گیا تھا جس میں وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے، یکم مئی کو مزدور کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ دن مزدوروں کے لیے عام دن کی طرح ہی ہوتا ہے۔ وہ دن رات فیکٹریوں میں کام کرنے والے یا کھلے میدانوں میں سورج کی سخت گرمی میں کام کرنے والے ہوں، یا پھر اونچی اونچی عمارتوں پر مزدوری کرنے والے ، یا پہاڑوں کی گہری کانوں میں کام کرنے والے مزدور ہوں سبہی کام پر جاتے ہیں کیونکہ یہاں مزدور کی زندگی بہت ہی سستی ہے۔
عالمی سطح پر مزدوری کا وقت 8 گھنٹے مقرر ہونے کے باوجود مزدور 12 سے 16 گھنٹے اور کچھ 18 گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔ جس کی وجہ خراب ملکی معشیت، مہنگائی میں بے پناہ اضافہ، فیکٹری مالکان اور مزدوری دینے والے افراد کی طرف سے تنخواہوں میں کٹوتی ہے۔ ملک میں موجود لیبر یونین بے کار ہو چکی ہیں کیونکہ اب ان میں بھی رشوت خور اور کرپٹ افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے یہ تمام یونین اور اس طرح کے ادارے اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ اب ایک مزدور کےلیے مزدوری سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہر آنے والے دن میں مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے
۔
عالمی Slavery Index کی 2018 کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3 لاکھ افراد ایسے تھے جو اپنے آجروں کے ساتھ ہر حال میں کام کرنے کے پابند تھے اور انکے بچے سکول جانے کی بجائے اپنے والدین کے ساتھ مزدوری کر رہے تھے تاکہ وہ سب مل کر اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ یکم مئی کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مزدور اپنی کم از کم اجرت میں اضافے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن 2020 کے پاکستانی بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے مزدور طبقہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ اگر کسی سال مزدور کی کم از کم تنخواہ میں اضافہ ہوتا بھی ہے تو نوٹیفیکیشن نکالنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بڑھی ہوئی تنخواہ بھی مزدوروں کو نہی مل پاتی۔
پاکستان عالمی لیبر قوانین کو تسلیم کرتا ہے لیکن غیر رسمی مزدور جو گھریلو کام کاج یا غیر ہنر مند افرادی قوت جو ذاتی حثیت میں رکھے جاتے ہیں ان کی بہت بڑی تعداد ہے جو ان قوانین میں شامل ہی نہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ غیر رسمی اافرادی قوت اپنے آجروں کے مزاج کے رحم و کرم پر ہی رہ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ زراعت کے شعبے سے منسلک مزدوروں کے حقوق کے لیے بھی کوئی قانون موجود ہی نہی جو کہ 65 ملین کے لگ بھگ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ جو آج کے جدید دور میں بھی مزدوروں کے استحصال کی بد ترین شکل ہے۔
یکم مئی کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لیبر ڈے منایا جا رہا ہے۔ آج ہفتے میں جن کی دو چھٹیاں ہیں اور 8 گھنٹے ڈیوٹی ہے اور صحت اور زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں وہ اپنے گھروں میں آرام کر رہے ہیں اور جن پھول سے معصوم ہاتھوں میں کتابیں ہونا چاہیے تھیں آج وہ اینٹوں کے بھٹھوں پر مزدوری کر رہے ہیں، جن لوگوں کو صحت کی سہولیات ہونی چاہیے تھیں وہ ہسپتالوں کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں، جن لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا میسر ہونا چاہیے تھا وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلے فیکٹریوں ، کھیتوں، عمارتوں اور کانوں میں مزدوری کر رہے ہیں۔ اس ظالمانہ نظام کی وجہ سے مزدور 18 گھنٹے کام کر بھی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
مزدوروں کے ساتھ نام نہاد یک جہتی کیلیے یکم مئی کو ریلیاں، جلسوں اور بڑی بڑی تقاریر کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن دوسرے ہی دن سب بھول جاتے ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے ان حکمرانوں کیلیے جو اپنے آپ کو مسلمان ، ریاست مدینہ اور اسلام کے قلعے کا محافظ کہلاواتے ہیں۔ ایسی ریاست جو اپنے کارکنوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیتی ہے اس کی افرادی قوت جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور کمزور افرادی قوت سے کبھی بھی ترقی ممکن نہں ہو سکتی۔ اس لیے ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے سے گزارش ہے کہ مزدور کو اس کے حقوق دیے جائیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں ایک اچھی زندگی گزار سکے کیونکہ مزدور کی خوشحالی سے ہی ملک و قوم کی خوشحالی ہے۔
یہ حکومت تو صرف اشرافیہ کو ہی نواز رہی ہے اللہ انکو ہدائیت دے تاکہ یہ مزدوروں کے حقوق کے بارے میں بھی سوچیں۔
YOU ARE RIGHT
ٓاللہ حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ غریبوں کے بارے میں بھی سوچیں۔
مزدور کی خوشحالی سے ہی ملک و قوم کی خوشحالی ہے