Skip to content

کیا آپ جانتے ہیں ساتواں براعظم کب اور کیسے وجود میں آیا؟

دنیا کو ساتواں براعظم کیسے ملتا ہے؟ جب ہم سنتے ہیں کہ امریکہ پندرہویں صدی میں دریافت ہوا تھا تو سوچتے ہیں کہ نئے بر اعظم کا نام لوگوں کے کانوں میں پہلے پہل پہنچا ہوگا تو ان کے دلوں کی کیفیت کیا ہوئی ہوگی لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ خود ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بہت بڑاکام ہو رہا ہے کہ اس کے حالات تاریکی سے روشنی میں آرہے ہیں اور اس دریافت کے ساتھ ہمیں کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دریافت دنیا کے عام حالات پر کتنا گہرا اثر ڈالے گی.

یہ سات ہی بڑےبراعظم وہ ہے جو قطب جنوبی کو گھیرے ہوئے ہیں. بیسویں صدی میں اس کی چھان بین کے لئے جو ٹیم بھیجی گئی ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بر اعظم رقبے میں کم از کم پچاس لاکھ مربع میل ہوگا یا ہے. کہ یورپ کا رقبہ صرف ساڑھے 37 لاکھ مربع میل ہے گویا بڑی آزمائش یا امریکہ اور افریقہ کے بعد رکھنے میں چوتھے درجے پر ہوگا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے تمام حصوں کا پتہ لگا لیا جائے تو یہ پچاس لاکھ مربع میل سے بھی زیادہ نکلے امریکہ نے اس کی صرف چار لاکھ 60 ہزار مربع میل زمینوں کا نقشہ تیار کیا تھا. اس پر سرسری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں میل تک برف ہی برف چلی جاتی ہے برف کے پہاڑ کدھر یا بڑا کے سینکڑوں میل لمبے سلسلے کو شمالی کی طرح یہاں بھی چھ مہینے کا دن ہوتا ہے اور چھ مہینے کی رات جب دن ہوتا ہے تو آفت پر ہلکی سی تاریکی نمودار ہوتی ہے کہ دن بیت گیا اور اب رات آنے والی ہے اور جب رات ہوتی ہے تو ذرا سی روشنی کی جھلک یہ بتا دیتی ہے کہ دن نکل آیا اور رات ختم ہوئی. اس پر اعظم کی دریافت کا سلسلہ اٹھارویں صدی میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن باقاعدہ مہم 1901 سے جانے لگی جنوری انیس سو بارہ میں اسکاٹ قطب جنوبی پر جا پہنچا لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس سے پیشتر نہ روئے کا ایک منچلا آدمی وہاں اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ چکا تھا .

واپسی میں اسکاٹ اور اس کے ساتھ ہی بستانی ہوا میں ایسے پھنسے کہ ایک رات کو خیموں میں لیٹے لیٹے ان کے جسم اکڑ گئے اسی طرح اور لوگوں نے بھی علم و اکتشاف کی راہ میں جانے دیں مگر موت کا سلسلہ نہ رکا اب تو ایسے سامان ہاتھ آگئے ہیں کہ ان کی مدد سے بہت سی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے مسلہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ہیلو کی کھاڑی کا نقشہ بدل رہا ہے اور اس کا کہا نہ کسی روز بارش کے باعث بند ہو جائے گا 1997 میں امریکہ سے مہنگی اس کے ساتھ برف کاٹنے والا جہاز بھی تھا جس کی مدد سے دانے کی دونوں طرف سے برف کا بہت بڑا حصہ کاٹ کر اسے چوڑا کر دیا گیا برف کی تہہ 20 سے 50 تک موٹی تھی اس میں ہم نے یہ پتہ لگایا کہ کام کو قطب جنوبی کا مرکزی نکتہ سمجھا گیا تھا وہ صحیح نہ تھا البتہ اس سے ڈیڑھ سو میل شمال مغرب میں ہے اب بڑے بڑے ہوائی جہازوں سے بھی اکتساب میں مدد لی جا رہی ہے .

قطب شمالی اور قطب جنوبی میں بہت فرق ہے مسلم قطب شمالی کے برفستان و میں کم و بیش ایک لاکھ انسان رہتے ہیں وہاں بہت سے جانور پائے جاتے ہیں اور ایسے جنگلات موجود ہیں جن کی لکڑی بہت قیمتی ہوتی ہے قطب جنوبی میں نا ایسی کوئی آبادی ہے نہ وہیل مچھلی اور دریائی بچھڑے یار جس کے سوا کوئی جانور ہے اور نہ درخت ہے کل بتائیں سے سلسلہ ہائے کوہ ضرور ملتے ہیں جن کی اونچائی پندرہ بیس بیس ہزار فٹ ہے کہ انہیں صرف اونچائی کے سبب سے کہا جاتا ہے ہوسکتا ہے پہاڑ نہ ہو محض برف کے تودے ہی ہو آج کل بنی آدم کی چھان بین کے لئے بہت سی قوموں کے سائنسداں پہنچے ہوئے ہیں اور مل جل کر کام کر رہے ہیں اگر یہ لوگ ضروری باتیں دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو عین ممکن ہے کہ کتب جنوبی کا برفانی براعظم بھی اسی طرح آہستہ آہستہ آباد ہو جائے گا جس طرح امریکہ آسٹریلیا اور دوسرے بے شمار جزیرے گزشتہ تین چار صدیوں میں آباد ہوئے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *