دنیا کی ایسی کوئی آبی شاہراہ پیش نہیں کی جا سکتی جس نے مشرق و مغرب کی تجارت، سیاست اور میل جول پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو، جتنا نہر سویز نے ڈالا۔بحیرۂ روم کو آبی راستے سے بحیرہ قلزم کے ساتھ ملانے کے منصوبے بہت پرانے تھے اور ان پر عمل بھی ہوتا رہا۔ ابتدائی زمانے میں ایسی کوشش کا جو اندازہ کیا جا سکا ہے وہ یہ ہے کہ دریاۓ نیل کے کسی حصے سے ایک نہر نکال کر بحیرہ قلزم تک پہنچا دی جاتی تھی۔
بحیرۂ روم سے کشتیاں دریا کے راستے اندر آتیں پھر نہر کہ ذریعے سےبحیرہ قلزم میں پہنچ جاتیں۔ہارون الرشید نے بھی ایک نہر کے ذریعے سےبحیرہ قلزم اور بحیرہ روم کوملانا چاہتا تھا لیکن وہ اس وجہ سے رک گیا کہ اس طرح موقع پا کر رومی بیڑا عرب کے ساحل تک پہنچ جائے گا اور وہ پاک سرزمین خطرے میں پڑ جائے گی جسے کافروں سے بچائے رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے۔ جب پر تگیزوں نے راس امید کا چکر کاٹ کر ہندوستان اور مشرق بعید کا راستہ معلوم کرلیا اور اس سے وینس کی بحری تجارت پر زد پڑی تو وینس کے انجینئرؤں نے بحیرہ روم سے بحیرہ قلزم تک ایک نہر نکالنے کی تجویز پیش کی تھی.
.لیکن سلطنت عثمانیہ نے اسے منظور نہ کیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں ایک فرانسیسی انجینئر ڈی لیسپ نے نہر کی اسکیم تیار کی .سعید پاشا خدیو مصر سے لیسپ کے دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ اس نے نہر کے لیے ایک کمپنی بنانے کی تجویز منظور کرالی جس کا سرمایہ بیس کروڑ فرانک رکھا گیا اور اسے پانسو فرانک کے چار لاکھ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔جب لیسپ اس کمپنی کی منظوری حاصل کرنے کے لیے قسطنطنیہ پہنچا تو وہاں پر برطانوی سفیر نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی۔اسے اندیشہ تھا کہ اس نہر کے بن جانے سے برطانیہ بحری برتری کو نقصان پہنچے گا اور فرانسیسیوں کے لیے مشرق میں مداخلت کا دروازہ کھل جاۓ گا،تا ہم کمپنی کا کام جاری رہا۔
25اپریل 1859ءکو پورٹ سعید کی طرف سے اس کی کھدائی شروع ہوئی۔دس سال میں نہر مکمل ہوگئی۔14 نومبر 1829 کونہر کا افتتاح ہوا۔ اس کے بڑے حصے دار تین تھے۔ فرانس ترکی اور خدیومصر۔ اسماعیل پاشا خدیومصر کو مالی مشکلات پیش آئی. تو اس کے بہت سے حصے حکومت برطانیہ نے پونےچالیس لاکھ پاؤنڈ کی رقم دے کر1875 میں خرید لئے۔31 مارچ 1945 کو ان حصوں کی قیمت دو کروڑ 45 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ ہوگئ۔ نہر کے انتظام کے لئے کئی مرتبہ بین الاقوامی نمائندوں کے اجتماع ہوئے
جن میں1888 کا اجتماع خاص طور پر قابل ذکر ہے۔اس میں فیصلہ ہوگیا تھا کہ یہ نہر تمام قوموں کے جہازوں کے لیے کھلی رہے گی۔29 نومبر کو اس سمجھوتے پر مختلف حکومتوں نے دستخط کردیے جن میں برطانیہ، فرانس، روس،ترکی، اور اٹلی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مہر کی تعمیر اور توسیع پر کل 88کروڑ اڑتالیس لاکھ چھیانوے ہزار فرانک خرچ ہوۓ۔ یہ 101 میل لمبی ہے اور چوڑائی 196 فٹ 10 انچ سے کم کہیں نہیں۔ اس کی گہرائی 30 فٹ ہے۔ جہاز کے گزرنے کا عام وقت گیارہ گھنٹے اور چھ منٹ رکھا گیا ہے۔
اس نہر نے یہ یورپ اور جنوبی مغربی ایشیا کو ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا ہے. راس امید کے راستے بہت چکر پڑتا تھا۔1954 سے پیشتر نہر سویز پر برطانوی حکومت کا تسلط تھا. اور اس کی حفاظت کے لئے انگریزی فوج نہر سویز کے علاقے میں رہتی تھی۔ جب برطانوی فوج نہر سویز کے حلقے سے نکل گئی. اور اور حکومت مصر کو اسوان بند کی تعمیر کے لیے برطانیہ اور امریکہ نے مناسب امداد دینے سے انکار کردیا. تو حکومت مصر نے 24 جولائی1954 کو نہرسویز کو قومی ملکیت بنا لینے کا اعلان .کیا
اور سارا انتظام خود سنبھال لیا۔ اس پر کشمکش شروع ہوئی جس نے نومبر 1954 میں جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ اہرم مصر کی پامردی اور انجمن اقوام متحدہ کے بیچ بچاؤ سے جنگ بند ہوئیں. اور برطانیہ فرانس اور اسرائیل کو بھی اپنے فوج ہٹانی پڑیں۔ ابنہر کا سارا انتظام اور نگہداشت مصر کی حکومت کے ہاتھ میں ہے .