لفظِ قربانی درحقیقت” ق،ر،ب“کامرکب ہے جس کامطلب یہ ہےکہ جان …یا…مال کانذرانہ بارگاہ الہی میں پیش کرکے اس کا قرب حاصل کرنا۔مگر عام بول چال میں اس کے آخرمیں ”ی“کااضافہ کرکے اسے قربانی بنادیا،جیسے لفظ حاج کے آخرمیں” ی“کی زیادتی کرکے اسےحاجی بنادیا۔نیز 10تا12ذوالحجہ کےمخصوص وقت میں حضرت محمدﷺآورآپ کے اجدادحضرت ابراہیم اوراسماعیل کےسنت کریمہ پرعمل کر تے ہوئےمخصوص جانورکورا ہِ خدامیں بنیتِ عبادت قربان کرنا،عرف ِشرع میں”اضحیہ،نسک ضحیہ“ کہلاتاہے۔
گزشتہ ادوارکی مانندعصرحاضرمیں بھی فکرعقلیت کے حامل افراد جوہرشے کونفع ونقصان کے پیمانہ میں رکھ کرفیصلہ کرتے ہیں،جن یہاں
”قبول“اور”رد“کامعیارعقل ِعام ہے،یہ کہتےنظرآتےہیں کہ ہرسال ان ایام میں اتنی تعدادمیں جانوروں کوذبح کرنا،مال کا ضیاع اورغیرمعقول و صائب عمل ہے…بعض اوقات یہ بھی کہاجاتاہےکہ قربانی کی مدمیں خرچ ہونے والی رقوم کو،اگرانسانی فلاح وبہبودوالےافعال میں صرف کرنازیادہ بہتر ہے،توازروئےِ شرع قربانی ایک امرتعبدی ہے جس کامدارومناط عقل انسانی نہیں ،بلکہ نبی کریم ﷺ کےذریعہ ہم تک پہنچنےوالااللہ عزوجل کایہ پیغام ہےکہ” ایام قربانی میں ابنِ آدم کاکوئی نیک عمل بارگاہ الہی میں قربانی سے زیادہ محبوب وپسندیدہ نہیں ہے۔الخ“اوراگرازروئے وسائل بھی دیکھاجائے،توجانوروں کے کھال،گوشت ،آنتیں،چربی الغرض تمام ہی اجزاء،بے کاروضائع نہیں ہوتےبلکہ یہ مختلف النوع قسم کے پیشہ ور افرادکےلئے باعث ِروزگارہے۔
لامحالہ یہ ملک کی معیشت کےلئےبہترین ذریعہ ہے۔اوربنظرِغائردیکھاجائے،تواس طرح کےخیالات کااظہار محض احکامِ شریعت میں ہی کیوں کیاجاتا،اپنے ذاتی ……یا…گروہی افعال اورتقریبات میں مثلِ ماء، رقوم کو بہاتےوقت یہ جملہ مشورہ دماغ کس خانہ میں گم ہوجاتےہیں،وہاں انسانی فلاح وبہبودکیوں یادنہیں آتی،توایہ اس امرکی عکاسی کرتاہےکہ فقط شیطانی وساوس ہے۔اس سے زیادہ اس کی کچھ حقیقت نہیں ۔اورویسے بھی قربانی نہ کرنے والے اشخاص قربانی کے برابررقوم نکال کرفلاحی ادارے کودیتے ہوں ،یہ ہم نہیں دیکھا۔
نیزقربانی کامقصدحقیقی،قرب الہی ہےحصولِ گوشت نہیں،اوراس”قربانی کی تاریخ“اتنی ہی پرانی وقدیم ہےجتنی نوع ِانسانی کی۔کہ قران مجیدکی سورہ مائدہ کی آیت27کےمطالعہ سے یہ واضح طورپر معلوم ہوتاہےکہ ہابیل وقابیل کی قربانی بارگاہ ایزدی میں پیش کی گئی ،توایک کی قربانی آسمانی آگ نے جلاکرقبول کی اوردوسرے کی ردکردی گئی،توجہاں اس واقعہ میں ان کابارگاہ الہی میں قربانی کاپیش کرناموجودہے،تووہاں اس امرکی غمازی بھی ہوتی ہے،کہ یہی پہلی قربانی اورمعیار ِقبول اس وقت آگ کاجلاناتھاجویہ بتاتاہےکہ مقصودِقربانی گوشت پوست نہیں ۔اس طرح کچھ شواہد احادیث کریمہ میں مال غنیمت کےبابت کے بھی ملتےہیں۔لیکن اب یہ معاملہ نہیں بلکہ قربانی کے قبول وردکومخفی رکھاگیاہے۔جویقیناً اس امت مرحومہ پرخصوصی کرم ہے کہ اللہ تعالی نے اظہارِ رد،نہ کرکےہرعام وخاص،امیرغریب کی پردوپوشی بھی کی اورمعاشرے میں رسواہونے سےبھی بچالیا،کہ کون جانے کسی کی قربانی قبول ہوئی اورکس کی مردود۔
اورادائیگی قربانی پراجربھی دیااورہمارےلئےاسے طعام وغیرہ کےلئے قابل ِاستعمال ومنفعت بھی بنادیا۔جبکہ ماقبل شرائع میں جلنے کی وجہ سے ان کےلئے قابل استعمال نہیں رہتی تھی۔اورقربانی کاجانورجس قدرفربہ ،خوبصورت اورقیمتی ہوگا،اتنا ہی وہ بارگاہ الہی سے صاحبِ قربانی، اجرکامستحق ہوگا۔اگرچہ ازروئے فقہ ،یہ ایک مستحسن عمل ہے ،لازم وضروری نہیں۔مگریہاں اپنی نیت ومقصد کواچھی طرح دیکھ لیناچاہئےکہ اس کامقصود حصول ثواب ہے…یا…خلق خدا میں شہرت،اظہارِ شان وشوکت ۔
اوراس پرفتن دورمیں ابن آدم کایہ طرز عمل کہ ایام قربانی سے چندروزقبل خوبصورت جانورلاکراس کی تشہرو نمودو نمائش کرنابھی ثانی الذکرعمل کی غمازی کرتاہےاوریہ حقیقتِ عبادت کےیکسرمنافی ہے۔لیکن ہم کسی پرقطعی حکم نہیں لگاسکتےکہ یہ ایک مخفی امرہے اور جس پر،ذات ذوالجلال کےعلاوہ…یا…اس کےبتائےبغیرکوئی بھی اطلاع نہیں پاسکتا۔اس کےباوجوو ہمیں اعتدال کادامن نہیں چھوڑناچاہےکہ صاحبِ ثروت افرادکی یہ روش،مفلوک الحال افرادمیں کئی قسم کے مفاسدکادروازہ کھول دیتی ہے،جومعاشرہ میں قتل وغارت اورلوٹ مار کی شکل میں ظاہرہوتےہیں مگرالمیہ یہ ہےکہ ہم روح عبادت کوسماعت ،ذہن …یا…زیادہ سے زیادہ زینتِ قرطاس تک رکھتے ہیں۔اپنی شخصیت پراس کانفاذنہیں ہوتا۔مثلاً فضائلِ نماز یہ باورکروایاجاتاہےکہ نماز، پابندی وقت،صفائی وستھرائی اورنظم وضبط کادرس دیتی ہے،لیکن آج ہم ان جملہ امورسےبہت دورہوجا چکےہیں۔
عام افرادتوکجا،صاحب اقتدار حضرات بھی ان امورمیں سرفہرست ہےکہ ہماری ملکی پالیسا،غور خوض اور،مشاہدہِ ماحول کےبعدنہیں ،بلکہ بوقتِ مصیبت فی الفورہی ترتیب دی جاتی ہے،جن کی اساس پرہمیں داخلی وخارجی خطرات کاسامنے کرنے کی قوت وجرأت ہی نہیں ہوتی اورنہ ہی ہم اس کے مدمقابل استقامت کےساتھ کھڑے ہوپاتے،مآل کارناکامی ہی ہوتی ہے۔کیونکہ ہنگامی پالیسیوں کے بنیادپرکوئی کامیاب کیسے ہوسکتاہے۔حالانکہ حالت ہم سے قربانی کےمتقاضی ہیں اورہم حقیقت حال کوسمجھنےسےعاری ہوچکےہیں۔
بہرحال دنیادارحضرت اپنی…یا…دیگرکی یادگاریں قائم کرنےکےلئےبہت سے افعال مثلاً عجیب وغریب ہیئت کے مکان و گنبدتعمیرکرا تےہیں،کہ انہیں یادرکھاجائے،لیکن اللہ جل شانہ نے اقدارکوعبادت کادرجہ دیکراسے رہتی دنیاتک زندہ کردیا۔
نیوز فلیکس08مارچ 2021