ایرانی ایک مدت تک تنخواہ دار یونانی سپہ سالاروں کی عقل و دانش اور یونانی سپاہیوں کی قوت بازو سے فائدہ اٹھاتے رہے لیکن اربیلا کے میدان جنگ میں حصہ پلٹ گیا .یونانی عقل و دانش کی برتری سکندر کی شکل میں اور یونانی قوت بازو کی برتری مقدونیہ کے سپاہیوں کی شکل میں بروئے کار آئی. اب یونانی یہ مقصد لے کر اٹھے تھے کہ ایرانی سلطنت کو پاش پاش کر کے دم لیں گے اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئے.
اس جنگ کی کہانی 331 کے اس دن سے بہت پہلے شروع ہوتی ہے. جب فریقین کے درمیان آخری فیصلے کے لیے تصادم کی نوبت آئی تھی .سکندر کی پرورش ہیں اس آرزو کی کوشش میں ہوئی تھی کہ ایرانی قوت کلو درہم برہم کیے بغیر نہ رہ جائے گا .اس کی عمر میں جب اسے پہلے پہل ایک لشکر کا سالار بنایا گیا تو یہ گویا ایرانیوں کو شکست دینے کی راہ میں اس کا اولین قدم تھا .وہ بیس سال کا تھا کہ اس کے باپ نے وفات پائی اور مقدونیہ کے تاج تاج و تخت کے لیے جنگ چھڑ گئی یہ ایرانیوں کو شکست دینے کی راہ میں دوسرا قدم تھا تاجدار کے لئے مناسب یہ تھا کہ پیچھے ہٹ جاتا .. قدیم زمانے میں جوان مردی کا تقاضا یہی سمجھا جاتا تھا کہ اپنی جگہ قائم رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے اور دست بدست لڑائی میں بھی تامل نہ کیا جائے سکندر ایشیا ہیں ایرانی رسالے سے مقابلہ پیش آیا اور اس رسالے نے دریائے گرینی میں کسی کے کنارے شکست کھائی.
اس کامیابی کے بعد سکندر نے بحیرہ روم کا ساحلی علاقہ مسخر کر کے ایرانی بیڑے کا بالکل بے کار کر دیا یہ ہو چکا تو ایرانیوں نے شام کے شمالی علاقے میں طوس کے مقام پر سکندر سے جنگ کی پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ایرانی نے سالے کی نقل و حرکت میں مشکلات پیش آئیں ایرانی سوار سکندر کی پیادہ فوج سے عہدہ برا نہ ہو سکے اور انہیں پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا سکندر نے شکست خوردہ ایرانیوں کا تعاقب نہیں کیا بلکہ اپنے تیار کئے ہوئے نقشہ جنگ کے مطابق پیش قدمی کرتا رہا اور شام فلسطین اور مصر کی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا.
اس طرح پورے ساحل پر تین سو اکتیس کے موسم میں بہار میں اس نے آخری فیصلہ کن لڑائی کے لیے قدم اٹھایا سکندر نے یہ پیشکش ٹھکرا دی دراصل وہ بابل کی قدیم سلطنت کے زرخیز خطے کا خواہاں تھا جو دو سو سال سے ایرانیوں کے قبضے میں چلا آتا تھا دراز اس خطہ کے شمال میں اربیل کے قریب ہرا ہوا تھا اس کے سواروں اور پیادوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے کم نہ تھی اس کے مقابلے میں یونانی سپاہی صرف 47 ہزار تھے میدان میں سے بھی ہموار تھا مگر انہوں نے اسے اور ہموار کر دیا تاکہ ایرانی رسالے اور جنگی رکھو کو نقل نقل و حرکت میں آسانی رہے سکندر نے صف بندی کرتے وقت اپنے سواروں کو مہینہ پر رکھا جب ایران کے جنگی طیاروں نے یونانی رسالے پر حملہ کیا تو یونانی تیر اندازوں نے تاک کر رقص کرنے والوں کو اپنے تیروں کا نشانہ بنایا اس طرح جب ایران کے جنگی رتھوں میں افراتفری پھیل گئی تو سکندر کا جو رسالہ اور پیادہ دستے میں منہ میں پر موجود تھے انہوں نے تجھے ہو کرم سر کی طرف پیش قدمی کی اور اس دیش پر پیچھے سے دھاوا بول دیا جو اس کی حفاظت کر رہا تھا.
آخر کار وہ بھاگ نکلا اور ان کی جس فوج کو شکست سے نہ اگر ممکن سمجھا جاتا تھا وہ ایران کی فتح کے بعد سکندر ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور جہلم کے قریب راجہ پورس کو شکست دی تھی وہ دریائے بیاس سے آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر فوج نے انکار کردیا چنانچہ وہ حضرت سندھ اور بلوچستان کے راستے عراق کے شہر بابل میں واپس آیا جسے اپنا مرکز حکومت بنانا چاہتا تھا یہی 33 برس کی عمر میں اس نے وفات پائی اور اس کے ساتھ ہی تمام دنیا کو فتح کرنے کا منصوبہ درہم برہم ہوگیا لیکن عربی کے میدان میں اس کی فوج نے یونان کا جو نقش قائم کیا تھا وہ صدیوں تک ایشیا پر اثر انداز رہا.