Skip to content

کوہ پیماہ محمد علی سدپارہ

کوہ پیمائی کا کھیل ہمیشہ سے خطروں سے بھرا رہا ہے جس میں کوہ پیماؤں کی واپسی کا یقینی طور پر کہا نہیں جا سکتا ۔کئی تو برف پوش پہاڑوں کی کھلی دراڑوں (crevasses)میں گر کر جان گنوا دیتے ہیں اور کئی ایولانچز (avalanches)کی زد میں اجاتے ہیں اور کئی حفاظتی رسیوں کی کمزوری کی وجہ سے گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اگر پہاڑ پھر کے ٹو (K2)ہو(پہاڑوں کا بادشاہ) تو یہ اور بھی مشکل ہے اس پہاڑ کو لگام دینا کیونکہ کےٹو کو جان لیوا پہاڑ (The savage mountain)کہا جاتا ہے جس پر موسم گرما میں بھی درجہ حرارت منفی ۲۰ (-20C)سے نیچے رہتا ہے اور موسم سرما میں منفی ۶۰ (-60C)سے ۷۵ (-75C)کے درمیان رہتا ہے اور ٹھنڈی ہواؤں کی رفتار (20km/h)۶۰ سے (200km/h)۲۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں۔ کے ٹو ہمیشہ سے ہی کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک عظیم چیلنج رہا ہے اور کو ٹو کو سر کرنے والے کوہ پیماہ بہترین کوہ پیماہ (Elite Climbers)مانے جاتے ہیں۔پچھلی صدی میں ۱۹۸۰ کی دہائی سے کوہ پیماہ مسلسل کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح اس پہاڑ کو موسم سرما میں سر کیا جا سکے مگر اس نے کسی کو موقع نہ دیا کہ کوئی اسکی چوٹی پر موسم سرما میں انسانی قدم رکھ سکے۔ حال ہی میں مسلسل چالیس سال کی کاوشوں کے بعد نیپالی شرپاؤں کی ایک انتہائی تربیت یافتہ مہم نے موسم سرما میں کے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھا اور خوش قسمتی انکی ایسی کہ سمٹ ڈے (Summit day)پر ہواؤں کی رفتار (0km/h)۰کلومیٹر فی گھنٹہ تھی (کے ٹو کی تاریخ میں ہزاروں میں سے ایک بہترین دن)…

اب آتے ہیں ہم اپنے ملکی کوہ پیماہ محمد علی سدپارہ جو کے ابھی کےٹو ونٹرز(K2 Winters) کی مہم پر ہیں ۔ علی سدپارہ کسی تعرف کے محتاج نہیں ہیں جو کہ پہلے ہی آٹھ ایسے پہاڑ جو کہ آٹھ ہزار میٹر سے بلند ہیں، کو سمٹ کر چکے ہیں اور انکی شہرت کی وجہ نانگا پربت کو موسم سرما میں پہلی دفعہ سمٹ کرنا ہے اور اسکے علاوہ بغیر کسی سامان اور سیفٹی کے بغیراپنی ٹیم کے پیروں کے نشان کو فالو کرتے ہوئےمشربروم کو سمٹ کرنا جب انکے انگریز ساتھی انکو سوئے ہوئے ہی کیمپ۳ پر چھوڑ گئے تھے مخظ یہ سوچتے ہوئے کہ علی سدپارہ ایک معمولی بوجھ اٹھانے والا پورٹر ہے۔ اسکے علاوہ علی سدپارہ بے شمار ریسکیو اپریشنز کا حصہ رہ چکے ہیں اور اس وقت وہ خود کے ٹو جیسے عظیم پہاڑ کے آگے بے بس ہیں اور آخری 45 گھنٹے سے کے ٹو کے ڈیتھ زون (Death zone)میں لاپتہ ہیں۔ نیپالی شرپاز نے بھی موسم سرما کے اس طوفان میں انکے ریسکیو آپریشنز پر جانے کیلئے انکار کر دیا ۔

کچھ لوگ سوشل میڈیا پر کہتے پھرتے ہیں کہ یہ ایک پاگل پن ہے، ہمارے نیوز چینلز علی سدپارہ کےسمٹ کی جھوٹی خبریں پھیلانے لگابغیر کسی تحقیق کے۔۔
اب سوال یہ ہےکہ انکو کیا پڑی تھی کہ جان کی بازی لگا کر اپنے شوق کو پوراکر رہے ہیں ؟ ایسی کیا چیز ہے جو انکو اکساتی ہے کہ خود کو اتنی تکلیف اور مشکلوں سے گزارتے ہیں۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ علی سدپارہ تو خود اپنی مرضی کے پابند بھی نہیں ہیں انکاہر قدم انکے ٹیم لیڈر جون سنوری کی مرضی سے ہوگا اور مہم کا ہر اہم فیصلہ کرنے کا اختیار انکی پاس نہیں بلکہ جون سنوری کے پاس ہے۔ علی سدپارہ ہمارے ہیرو تو ہیں مگر غیر ملکیوں کیلئے وہ ایک ہائی الٹیٹیوڈ پورٹر (High altitude porter)کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنی جان کی بازی لگا کر فارن کوہ پیماؤں کےلئے راستے بناتے ہیں اورروزگار کماتے ہیں

میں ساجد علی سدپارہ کی گزشتہ بتائی ہوئی رات کا کرب محسوس کر سکتا ہوں کہ کیسے اس اکیس سال کے جوان نے برفیلے پہاڑ پر باپ کا انتظار کر تے گزارے ہونگے اور باآخر مایوسی کی حالت میں باپ کو اکیلے موت کے منہ میں چھوڑ کر آیا ہوگا۔ کیسے ساجد نے بغیر کسی رابطہ کے ساری رات اس ٹھنڈ میں کیمپ سے باہر نکل نکل کر باپ کی واپسی کا راہ دیکھا ہوگا کہ کہیں سے کچھ لوگوں کی واپسی ہوگی یا دور کہیں چوٹی سے روشنیاں دکھائی دینگی ۔۔ اگر سب خیریت تھی تو انہیں رات سے پہلے کیمپ 3 پر آجانا چاہئے تھا ۔علی سدپارہ جو کہ بوٹل نیک (bottle neck)کراس کر چکا ہے مگر وہاں سے واپسی انتہائی مشکل کام ہے جہاں قریب 35 سے 50 کوہ پیماہ اپنی جانیں گنواچکے ہیں ،اور اس موسم میں ناممکن کے برابر۔۔
ساجد کس قدر بھاری بوجھ سے اترا ہوگا اس پہاڑ سے اپنے باپ کو لاپتہ چھوڑ کر مگر یہ شوق کے علاوہ پیٹ کی آگ تھی جو انہیں یہاں تک لے آئی تھی ۔۔

علی سدپارہ آپ نے ایک بار کہا تھا کہ اگر میں کسی دن پہاڑوں میں کھو بھی گیا تو فکر نہ کرنا میں برف کا گھر بنا کر کچھ دن گزار سکتا ہوں ۔۔ علی بھائی لوٹ آئیں اور دنیا کو بتا دیں کہ آپ نے یہ بھی کر دکھایا اور کےٹو کو مات دے دی۔۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ اپنی ٹیم سمیت کسی محفوظ مقام پر ہوں اور بہت جلد ہمارے خدشوں کو دور کر دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *