مولانافضل الکریم شیخ الاسلام راوی ہیں کہ شدید گرمیوں کا زمانہ ہے، دوپہر کے بارہ بج رہے ہیں اور حضرت مدنی رحمة الله علیہ پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کے با وجود دارالحدیث سے سبق پڑھا کر مکان پیدل واپس تشریف لے جارہے ہیں، چھتری پیش کی جاتی ہے تو اس کو لینے سے انکارفرمادیتے ہیں، بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا، آسان سے ترش ہورہا ہے لیکن حضرت دار الحدیث کی طرف جارہے ہیں، کپڑے پرکیچر پڑ رہی ہے، اس کی جانب کوئی توجہ نہیں، ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہے، کسی کی ہمت ہے کہ چھتری پکڑ سکے ، سواری پیش کی جاتی ہے تو اس سے بھی انکار فرمادیتے ہیں، ناصر تانگہ وال تانگہ لے کر کھڑا ہے، طلب گزارش کررہے ہیں کہ راستہ کیچڑ آلود ہے، تانگہ پرتشریف رکھئے ، مگر سنے حضرت کیا جواب دیتے ہیں؟ فرماتے ہیں کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے ، اگر اسی میں جائیں تو کیا ڈر ہے؟ ایک دن ناصر تانگہ والے کی برکت لینے کی تمنا اور طلبہ کے اصرار کو دیکھتے ہوئے مان گئے لیکن دوسرے دن کہیں جانا تھا، ناصر تانگہ والا حاضر ہوا تو اس کے تانگہ پر اس وقت سوار ہوئے جبکہ یہ شرط تسلیم کرالی کہ وہ درس گاہ تک لے جانے کے لئے آئندہ بھی نہ آئے گا۔ آخر جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو ایک دن مکان سے درس گاہ تک (جس کا فاصلہ تین چار سو قدم کے درمیان ہے) تشریف لا رہے تھے، راستے میں شمالی گیٹ پر ضعف کی وجہ سے در بان دارالعلوم کی نشست گاہ پر بیٹھ گئے، اسی واقعہ کے بعد ایکسرے کی غرض سے سہارنپور تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف لانے کے بعد طلبہ نے عرض کیا کہ حضرت!
کچھ دنوں کے لئے سبق موقوف فرمادیں تو آپ نے جواب دیا کہ لڑکوں کو شرارت سوچتی رہتی ہے، یہ نہ پڑھنے کا بہانہ ہے، مجھے تو سبق پڑھانے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی ، البته آنے جانے میں ذرا تکلیف ہوتی ہے۔
عرض کیا کہ حضرت ! سواری کا انتظام قبول فرمائے ، تو فرمایا:” ہاں یہاں تک آنے جانے کے لئے ہوائی جہاز کا انتظام کرلو یہ وہ دن تھا جس روز سول سرجن نے انتہائی تاکید کی گئی کہ رات کو درس نہ دیا جائے ، حضرت شیخ نے ڈاکڑ کا مشورہ تو قبول فرمایا مگر وہ اس طرح کہ بجائے شب کے نماز عصر کے بعد سلسلہ درس شروع فرمادیا۔