Skip to content

تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد حسین رضوی صاحب کی للکار

مولانا خادم حسین رضوی نے جس طرح ناموسِ رسالت پر پہرہ دیا۔جس طرح نوجوانوں کے دلوں میں نبیﷺ کی محبت کو اجاگر کیا تاریخ انہیں کبھی نہیں بھولے گی۔تاریخ امولانا صاحب کو ایسے ہی یاد رکھے گی جیسے حجاج بن یوسف کے جنرل محمد بن قاسم کو یاد رکھے ہوئے ہے۔جس طرح حضرت ابو بکر کی جنگ یمامہ کو تاریخ یاد رکھے ہوئے ہے۔جس طرح صلاح الدین الایوبی کی بہادری کو تاریخ نہیں بھولتی۔مولانا خادمِ حسین نے نبیﷺ کی حرمت کا جس طرح پہرہ دیا تاریخ ایسے نڈر عاشقِ رسول کبھی کبھی پیدا کرتی ہے۔

مولانا کے دھرنے دیکھ لیں ریلیاں دیکھ لیں جلسے دیکھ کہیں لاکھ اختلاف ہو مگر کہیں بھی ذاتی مفاد کی سیاست نظر نہیں آتی۔معذوری کے باعث جیلوں کی مشقتیں برداشت کرنا کوئی بات نہیں ہے ذرا غور کریں تو جسم جنجھوڑ کے رکھ دے گی یہ داستان۔مولانا رضوی دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنی اولاد کو ورثے میں ناموسِ رسالت کا پہرے دار بنا گئے۔ان کے بعد ان کے بیٹے سعد رضوی نے کمان سنبھالی تو پہلی ہی تقریر میں حکومتِ پاکستان کو اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ یاد کروایا۔دو ٹوک الفاظ میں بتایا کے گستاخِ رسولؐ فرانس کے سفیر کو اس ملک سے جانا ہوگا۔مولانا سعد رضوی کا ناموسِ رسالت پر کھڑا ہونا محمد بن قاسم کے لقب ایک اور بت شکن پیدا ہوا کے مترادف ہے۔وہی باپ جیسا لہجہ وہی باپ جیسا رعب وہی باپ جیسا حافظہ وہی باپ جیسی للکار بلکہ سوشل میڈیا پر فرانس کے سفیر کے خلاف منظم تحریک کا آغاز بھی ہو چکا۔

جو لوگ اس شک میں مبتلا ہو چکے تھے کہ مولانا خادمِ حسین رضوی اب اس دنیا میں نہیں رہے تو شائد انکا مشن بھی اب کسی ردی کی ٹوکری میں چلا گیا۔مولانا سعد رضوی کی موثر پالیسیوں نے یہ بات انکو ضرور زہن نشین کر دی ہے کہ اب فرانس کے سفیر جانا ٹھہر چکا ہے۔مولانا خادمِ حسین رضوی کا مشن ادھورا نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جوش اور جذبے سے مکمل ہوگا۔حکومت سے کیے ہوئے وعدے کی مدت اگلے مہینے ختم ہو رہی۔جیسے جیسے وقت قریب آرہا مولانا سعد رضوی نے جلسوں کی پالیسی اپنا کر حکومتی حلقوں میں بے چینی ضرور پیدا کر رکھی ہے۔ہم سوشل میڈیا پر بھی دیکھتے ہیں کہ جو لوگ پہلے خادم رضوی سے بھی اختلاف رکھتے تھے وہ بھی سعد رضوی کی فرانس کہ سفیر کو نکالو کمپین میں سوشل میڈیا پر سر گرم نظر آتے ہیں

حکومت یہ معاہدہ توڑ نہیں سکتی اگر حکومت معاہدہ توڑتی ہے تو بات انتشار کی طرف بھی جا سکتی ہے۔اب حکومت کے پاس دو ہی رستے ہیں جن میں صرف ایک رستہ ہی ممکن نظر آتا ہے۔پہلا رستہ یہ کہ فرانس کے سفیر کو نکالنا ہی ہوگا۔دوسرا رستہ یہ کہ حکومت سعد رضوی کے ساتھ ایک نیا معاہدہ طے کر لیتی ہے۔معاہدے میں توسیع کا رستہ بہر حال مولانا سعد رضوی کی ایکٹیویٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے مشکل نظر آتا ہے۔ادھر حکومتی حلقے بھی اپنی سٹریٹجی طے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق حکومت فی الفور تحریک لبیک کے کارکنان کی گرفتاریوں کا سوچ رہی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ وقت سے پہلے گرفتاریاں ہوں اور مولانا سعد رضوی کو غیر معینہ مدت کے لیے نظر بند کر دیا جائے۔اب دیکھنا ہے کہ حق باطل پر کتنا غالب آتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *