ایک سمجھدار بندے سے ایک شخص نے پوچھا کہ آج کل اتنی غربت کیوں ہے ۔
اس بندے نے جواب دیا اور بولا آج کل اتنی غربت نہیں جتنا شور ہے ۔ آج کل ہم اسے غریب کہتے ہیں جو اپنی خواہشیں پوری نہ کر سکے ۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہمارے پاس سلیٹ پر لکھنے کے لیے سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے سیل کے سکے سے لکھ کے گزارا کرتے تھے ۔
عید پر بھی نیا جوڑا اسکول والا لیتے تھے تاکہ یونیفارم نیا نہ بنوانا پڑے غربت اتنی ہوتی تھی کہ ایک ساتھ دو نئے جوڑے بھی نہیں بنواسختے ایک عید کے لیئے ایک اسکول کے لیئے ۔
جوتے اور کپڑے صرف عید پر ہی لیا کرتے تھے ۔ اگر اپنوں میں کہیں پر شادی بیاہ ہوتی تو بھی جو کپڑے لیتے وہ اسکول کے رنگ والے ہی لیتے تاکہ وہ اسکول میں بھی کام آ سکے ۔
کپڑے کر پھٹ بھی جاتے تو بار بار انہیں ٹانکے لگا کے پہنتے ۔ جوتے پھٹ جاتے تو بھی انہیں سلائی کروا کے بنتے اس وقت کوئی باٹا ایرو سوفٹ کی کمپنیاں نہیں تھی بلکہ سادہ سی پلاسٹک کے چپلیں ہوتی تھی ۔
گھر میں اگر مہمان آ جاتا تو اس کے لئے اچھے کھانے کا اہتمام کرنے کے لئے نمک کسی گھر سے تو مرچ کسی اور گھر سے گھی کہیں سے تو پیاز کہیں سے مانگ کر لے کے آتے ۔
اس وقت تو خدا کا بہت زیادہ شکر کرنا چاہیے ۔ چھوٹے سے چھوٹے گھر میں بھی ایک مہینے تک کا تقریبا راشن پڑا ہوا ہوتا ہے ۔ ایک مہمان تو کیا سو مہمان بھی آجائیں تو کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پرتی ۔
آج کل کے بچے تو ماشاء اللہ صرف اور صرف سکول کے کم سے کم سات سے آٹھ جوڑے پریس کروا کے رکھتے ہیں تاکہ ہر دن وہ نیا جوڑا پہن کر اسکول جا سکیں ۔
آج کے دور میں اگر کسی کو کسی کی شادی میں جانا ہوتا ہے تو شادی کے لئے الگ مہندی کے لئے الگ اور ولیمہ کے لیے الگ جوڑا بنوا کے رکھتے ہیں ۔
اس وقت کے دور میں ایک انسان دو تین سو کا سوٹ اور حلقے جوتے پہن کے خالی جیب بھی خدا کا بہت شکر ادا کرلیا کرتا تھا ۔
اور آج کا نوجوان برانڈڈ کپڑے اسپیشل شوز اچھا سا موبائل فون بڑی گاڑی اسپیشل بنگلہ میں رہ کر بھی نہ شکری کرتا رہتا ہے اور غربت کا رونا روتا رہتا ہے ۔
اس وقت غربت اتنی ہوتی تھی کے گھر میں بتی جلانے کے لئے سرسوں کا تیل نہیں ہوتا تھا اور آجکل ایک ایک کمرے میں دس دس بلب لگے ہوئے ہیں ۔
آج کے دور میں انسان ناشکرا ہوگیا ہے اس لیے غربتیں زیادہ ہوں گئی ہیں ۔ ہم ناشکرے ہوگئے ہیں اس لیے کوئی بھی کسی چیز میں برکت نہیں ۔
شکریہ