تقدیر کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اپنی طرف سے تدبیر پوری کی جائے لیکن تدبیر کرنے کے بعد معاملہ اللہ تعالی کے حوالے کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ یا اللہ!ہمارے ہاتھ میں جو تدبیر تھی وہ تو ہم نے اختیار کرلی۔اب معاملہ آپ کے اختیار میں ہے آپ کا جو بھی فیصلہ ہوگا،ہم اس پر راضی رہیں گے۔ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
(1)…..حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ان لوگوں کو بلایا جائے گا جو ہر حال میں اللہ کی حمد کرنے والے ہوں گے۔(احیاء العلوم)
(2)…..حضرت میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو قضا پر راضی نہ ہو اس کی حماقت کا کوئی علاج نہیں۔(احیاء العلوم)
(3)…..حضرت فضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تو اللہ کی تقدیر پر راضی نہیں رہ سکتا تو اپنی تقدیر پر بھی راضی نہ رہ سکے گا۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ جو اور سرکہ کھانا اور ٹاٹ کا لباس پہننا کمال نہیں ہے،بلکہ کمال یہ ہے کہ اللہ سے ہر حال میں انسان راضی رہے۔
(4)….. حضرت محمد بن واسع رحمتہ اللہ علیہ کے واقعات میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے ان کے پاؤں میں زخم دیکھ کر کلماتِ ترحم استعمال کیے اس پر حضرت محمد بن واسع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں تو جب سے یہ زخم نکلا ہے مسلسل اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ یہ زخم میرے پاؤں میں نکلا،آنکھوں میں نہیں۔
(5)…..٫٫اخبار الاخیار،،میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی بیوی نے عرض کیا کہ فلاں لڑکا بھوک سے مر رہا ہے،فرمایا: مسعود بندہ کیا کرے گا اگر تقدیر الہی یہی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے۔بعض اسلاف کا قول ہے کہ اللہ تعالی جب آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ اہل زمین اس فیصلے کو بخوشی قبول کر لیں۔
(6)….. شیخ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ چلی گئی مگر بیس سال تک انہوں نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے بھی نہیں کیا۔ایک دن ان کے صاحبزادے نے غور کیا تو پوچھا ابو جان! کیا آپ کی آنکھ ختم ہو چکی ہے؟تو حضرت عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں بیٹے! زمانہ ہوا اللہ کی مرضی تیرے باپ کی آنکھ کو لے جا چکی ہے۔
لہذا جب بھی کوئی تکلیف دینے والا واقعہ پیش آیا کرے تو اس وقت فوراً یہ بات سوچ لیا کریں کہ یہ اللہ تعالی کے چاہنے سے ہوا ہے جو بہت زیادہ حکمت و بصیرت والے ہیں۔