اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ یعنی اللہ کی بہترین مخلوق۔ مگر بحثیت انسان اور پھر مسلمان اہم اپنے اقدار چھوڑ چکے ہیں۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ کتے کو ہم ایک ناپاک جانور کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ مگر انسان ہی انسان کو وفا کی مثال کُتے کی وفا سے دیتا ہے۔ہم اپنے روز مررہ کے معاملات پر توجہ دینے کی بجاۓ صرف حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
یعنی ایک دوکان دار اپنے مال کو جھوٹ بول کر بیچ رہا ہے تو حکومت کا کیا قصور؟؟؟ سرکاری دفاتر میں اور دیگر دفاتر میں بیٹھے ذمہ دران لوگ رشوت لے رہے ہین جبکہ رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں کو اس بات کا وعلم ہے کہ یہ عمل مذہبی اور معاشی لحاظ سے ایک سگین جرم ہے۔ بحیثت قوم ہم میں صبر وتحمل کا بھی خاصہ فقدان ہے۔چھوٹی چھوٹی بات پر دوست احباب سے تعلق ترک کرنے سے بھی گُریز نہیں کرتے۔ پرائیوٹ اور سرکاری ادارون میں کام کرنے والے ملازمیں سے اُن کے افسران کا رویہ نا مناسب ہوتا ہے۔ پولیس کے ادارے میں چھوٹے بڑے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے مختلف سلوک کیا جاتاہے۔ہمارے معاشرے میں قانون کو مکڑی کے جالے سے تشبیع دی جاتی ہے ۔ جسمیں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان جواسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے ۔جہاں اسلامی قوانین کا نفاز ہونے تھے مگر ہم شاہد کسی اور طرف جا رے ہیں۔ جیسی حکومت ہوتی ہے اللہ اُن پر ویسے حکمران لے آتا ہے۔ دوسروں کی خامیان تلاش کرنے کی بجاے اپنی خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ معاشرے کی اصلاح ہو پائے۔
مسلمَ امہ ایک جسم کی ماند ہے جس کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو پوراجسم بےچین ہو جاتا ہے۔ذات کی نفی کر کے ہی بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔بحیثیت مسلم ہمیں اپنی ذات کی نفی کرنی ہے ،تاکہ بہت کچھ حاصل ہو۔ پاکستان جہان معاشی بحران بروزگاری اور دیگر مسایل سے لڑر رہا ہے وہاں عوام کے اخلاقی نظم وضبط کی کمی کے مصلے سے بھی دوچار ہے۔ لہٰذا ،ہم پہلےمسلمان ہیں اور بعد میں پاکستانی ہیں۔بحثیت مسلمان اور پھر پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے۔تا کہ معاشرے کی اصلاح ہو پائے