پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا عروج زوال پزیر کیوں ؟

In شوبز
January 21, 2021

کسی ادارے کے عروج کو زوال تب ہوتا ہے جب اس سے منسلک لوگوں میں ایمانداری ختم ہوجائے ، لاپرواہی بڑھ جائے ، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جائے یا بہانے تراشے جائیں اور سب سے بڑھ کر ادارے کی کارکردگی کی نگرانی کا کام ٹھیک سے نہ کیا جائے ۔ افراد کی کارکردگی میں جمود طاری ہوجانا بھی ایک وجہہ ہے ۔ بالکل یہی صورتحال ہمارے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی ہے۔وہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جس میں بننے والے ڈرامے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بہت شوق سے دیکھے جاتے ہیں ۔پاکستانی ڈرامے مشرق وسطیٰ، انڈیا ، افغانستان، بنگلہ دیش ورنیپال جیسے ممالک میں نہ صرف دیکھے جاتے ہیں بلکہ بہت پسند بھی کئے جاتے ہیں اور جب کہ امریکہ، لندن، آسٹریلیا اور کینیڈا میں ہمارےچینلز بھی نشر ہوتے ہیں۔بہت افسوس ہے کہ اب اس کی بلندیوں کا عروج زوال پزیر ہورہا ہے۔
وجہہ ترکی کے ڈرامے یا اپنی کوتاہیاں:
جب ڈرامہ انڈسٹری سے جڑے لوگوں سے سوال ہوتا ہے تو پچاس فیصد بہت آسانی سے سارا الزام قومی چینل پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ارتغل غازی پریہ کہکے ڈال دیتے ہیں کہ کہ ترکی کے ڈرامے آنے کی وجہ سے پاکستانی آرٹسٹ کو کام نہیں مل رہا اور ناظرین ترکی ڈرامہ شوق سے دیکھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے لوگوں کو جہاں اچھے تفریحی پروگرامز ملینگے لوگ اسی چینل کو دیکھیں گے۔ لیکن حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔ ترکی کے ڈرامے آنے سے پہلے ہی سے اچھے اور معیاری ڈرامے بننا کم ہوگئے تھے۔پورے ہفتے میں مشکل سے ایک ڈرامہ بہتر دیکھنے کو ملتا تھا۔اور ابھی بھی یہی صورت حال ہے۔
کامیابی کیلئے بھاری بجٹ یا اچھا سکرپٹ :
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی زوال پذیر ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہاں پر بجٹ کا فقدان ہو چکا ہے ۔ کسی حد تک تو یہ بات درست مانی جا سکتی ہے لیکن پورا سچ یہ نہیں کیوں کہ رقص بسمل‎،مشک اور پریم گلی جیسے معیاری اور دلچسپ ڈرامے کیسے مناسب بجٹ میں بن رہے ہیں۔کیا پہلے جتنے بھی کامیاب اور مشہورڈرامے بنےسب کہ سب مہنگے بجٹ سے تیار ہوئے ؟نہیں ۔ بجٹ ہی صرف ڈراموں کی کامیابی کا راز نہیں ہوتا اچھا سکرپٹ ہونا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ڈرامہ آنگن پر آٹھ کروڑ کا بجٹ لگا کر بھی لوگوں کی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔
بہترین ڈرامہ نویسوں کے باوجود اچھی کہانیاں نہیں:
کہانی نویس، ڈائریکٹرزیا پروڈیوسرزکے انٹرویوز سنو تو وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئینگے کہ چینلز ہی نئی اور مختلف کہانیاں یہ بول کے قبول نہیں کرتے کہ ان کو کون دیکھےگا ۔ہمارے ڈرامے تو عورتیں دیکھتی ہیں اسلئے انکے لحاظ سے ہی ساس بہو کی کہانیاں لاؤ تاکہ ٹی آر پی زیادہ ملے ۔ڈرامہ انڈسٹری سے منسلک ہر شخص کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ساس بہو اور طلاقوں والے ڈرامے لوگوں کو دلچسپ لگتے تو “جلن” اور ” نند ” حدسے زیادہ تنقید کا نشانہ نہ بنتے۔کیا پڑوسی ملک کے ڈراموں کی مرہون منّت کم چالوں اور سازشوں کے ڈرامے پاکستانی خواتین تک پہچیں کہ اب نند اور جلن جیسے سازشی ڈرامے پیش کئے جانے لگے ہیں۔
پرائیویٹ پروڈکشن ہاؤسز کی بھرمار :ہر اداکار زیادہ آمدنی کے چکّر میں جلد از جلد اپنا پروڈکشن ہاؤس کھول کر بیٹھ جانا چاہتا ہے اس کا نقصان یہ ہے کہ ورائٹی کے باوجود معیار نظر نہیں آتا کیونکہ ان میں سے اکثر پروڈیوسرز ناتجربہ کار ہوتے ہیں ۔
کامیڈی اور تاریخی ڈراموں کا فقدان:
آجکل ذہنی تناؤ کم کرنے کے لئے اور دماغ کوسکون دینےکے لیے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں ور چاہتے ہیں کے ایسے پروگرامز اور ڈرامےدیکھیں جن میں مزاح کا عنصر موجود ہو ۔ سواۓ چند ایک کے ڈرامہ انڈسٹری اب کامیڈی ڈرامے بنا ہی نہیں رہی ۔ ان میں سے بلبلے اور ایک دو ڈرامے کے سوا کوئی بھی کامیڈی ڈرامہ معیاری ہوتا ہی نہیں ۔جبکےتاریخی ڈرامے اب بننے ہی بندہوگئے ہیں۔
بہتر نگرانی کی ضرورت:
قومی چینل پی ٹی وی کی کارکردگی کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ بہترین ڈرامہ نگار،ڈائریکٹرزوپروڈیوسرز کی کمی نہیں ہے انکی خدمات حاصل کی جائیں تا کہ معیاری ڈرامےبن سکیں۔ چند چینلز کی اجارہ داری کی جگہ سب چینلز کو معیار کی بنیاد پر آگے آنے کا موقع ملنا چاہئے ۔ سنسر بورڈ کی کارکردگی پر بھی نگرانی کی ضرورت ہے۔ ایک ٹریننگ سینٹر قائم کیا جائے جس میں منجے ہوئے تجربہ کار اداکار نئے اداکاروں کو تربیت دیں ۔ غیر ملکی ڈراموں کو لے کر آئیں لیکن ہرگز بھی پورا ہفتہ وہی ڈرامے نہ چلائےجائیں انکے جوڑ کے نہ سہی لیکن ڈرامے ضرور بنائے جائیں جنکو لوگ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کے دیکھ سکیں اور لطف اندوزہوسکیں۔تاریخی ڈراموں پر بھی کام ہونا چاہئے۔