صوبہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ کمیونٹی کے شہریوں جو کہ کان کن تھے کو لرزہ خیز انداز میں قتل کیا گیا۔ کمروں میں گھس کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر مارا گیا۔
روح کانپ جاتی ہے یہ بات سن کر ہی۔ جن کے ساتھ یہ ستم ہوا ان پر کیا بیتی ہو گی۔ ان کے خاندانوں کے ساتھ کیا بیتی ہو گی جنہوں نے ان کو قتل ہوتے دیکھا ہوگا۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ واقعات سن کر انسانیت شرمندہ ہوتی ہے۔ مگر یہ سب کرنے والے شرمندہ کیوں نہیں ہوتے؟؟؟
یہ واقعہ سن کے واقع ہی دل سے افسوس ہو رہا ہے کہ میں پاکستان کے شہری ہوں جہاں پر انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر انداز میں ذبح کیا جاتا ہے مگر یہاں پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سب خوبصورت انداز میں واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں اور اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ کیا خوبصورت الفاظ ادا کردینے سے ٹویٹ کر دینے سے فرض پورا ہو جاتا ہے؟؟؟
دہشت گردی کی مذمت کردینے سے یا پھر یہ کہہ دینے سے کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ یہ سب کہہ دینے سے کیا واقعی ہی انسانیت سوز ظلم کرنے والے کیفر کردار تک پہنچائیں گے؟؟؟
نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ اس قوم کا ماضی ایسی باتوں اور ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کون ہوتے ہیں یہ کان کن۔ یہ جو کانیں ہوتی ہیں ان میں کام کرنے والے مزدور لوگ ہوتے ہیں۔ بہت غریب دہاڑی دار لوگ ہوتے ہیں۔ یہ تو اس جگہ کام کرتے ہیں جہاں ویسے ہی ان کی زندگی رسک میں ہوتی ہے تو دہشت گردوں کو ان کو مار کر کیا ملے گا؟؟؟
ہم سب کہہ تو رہے” stand with hazara”
# tag بنا رہے ہیں مگر نہیں ہم ہزارہ کے دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے ہم معصومہ کے دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے جس کے خاندان کا کوئی مرد نہیں بچا جنازہ اٹھانے والا۔
سوچیں کیا بیت رہی ہوگی اس بچی کے خاندان والوں پر جن کا کوئی مرد ہی زندہ نہیں رہا اکیلی عورتیں کیا جنازہ اٹھا سکے گی؟؟؟
منفی 6 ڈگری سینٹی گریڈ پر ماتم کناں بیٹیوں اور عورتوں کے درد کو سمجھنے کے لئے ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے جو کہ اس قوم کا مر چکا ہے۔
بحیثیت قوم ہم قوم نہیں رہے۔ ہم جانوروں کا ہجوم بن چکے ہیں ہمیں ایک دوسرے کی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوتی۔ ہم صرف باتیں کرتے ہیں ہیں۔
یاد رکھیں کہ جس شخص کا قاتل نامعلوم ہو اس کا قاتل ریاست وقت ہوتا ہے۔