Skip to content

مراکش کا پہلا تاجر

*مراکش کا پہلا تاجر*

میلودی شبعی 1930ء میں مراکش کی ایک گاوں صویرہ میں ایک چوراہے کی گھر پیدا ہوا ۔کھیلنے کودنےاورسکول جانے کی عمر کو پہنچا تو لوگوں کے مال مویشی کاریوڑ میلود کا منتظر تھا۔یہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سارا دن لوگوں کی بکریاں چراتا۔میلود کا بچپن بڑے بھائی کے ہمراہ بکریاں چراتے چراتے گزر گیا۔

*میلود کی غربت*

وہ ایک قحط سالی کا سال تھا کہ میلود کے گھر میں فاقہ تھا باب کی دوائی کے لیے پیسے تک نہیں تھے ۔ایک دن میلود اور اس کے بڑا بھائی بکریاں چرانے کے لیے پہاڑی پر لے گئے ۔تو اس دن اس کابھائی بھوک کی شدت سے مرگیا،میلود بھائی کی نعش لے کر گھر آگیا،پیچھے سے بھیڑیوں نے بکریوں کے ریوڑ پر حملہ کر دیا ،اس دن کے بعد گاوں کے لوگوں نے اسے بکریاں چرانے سے بھی فارغ کر دیا۔

*نوکری کی تلاش*

یہ نوکری تلاش کرنے مراکش شہر میں آگیا ایک دو ہفتوں میں اس نے کوئی جگہ نہ چھوڑی جہاں نوکری تلاش نہ کی ہو مگر کہیں نوکری نہ ملی، یہ دن کو نوکری تلاش کرتا رات کو فٹ پاتھ پر سوتا۔

*جس شہر میں نوکری ملی*

پھر یہ قنیطرہ شہر آیا اور وہاں ایک مزدور کی حثیت سے اس نے کام شروع کردیا ۔دن بھر عمارتیں بنانے والے ٹھیکدار کے ساتھ روزانہ کی اجرت پر کام کرتا تھا۔ایک سال محنت سے کام کرتا رہا پھر ایک سال ایماندری سے کہیں نوکری کی ،دو سال بعد میلود کو اس بات احساس ہونے لگا کہ مزدوری اور نوکری سے وہ اپنے خوابوں کو کبھی بھی پورا نہیں کرسکے گا جن کو لے کر وہ گاوں سے نکلا تھا آخر کار وہ ٹھیکے پر کام لیتا اور اس کو ایمانداری سے کرتا ،آہستہ آہستہ میلود نے پیسہ بنانے کا گر سیکھ لیا۔

*اس کی امیری*

یہ میلود کا قصہ مختصر پیش ہے لیل و نہار اور زمانے کی ہزار ٹھوکریں کھانے کے بعد مراکش کی فضاؤں میں ایک ارب پتی شخص کا نام گونجنے لگا۔یہ نام میلود صاحب جو کہ چروا تھا ۔اس کا شمار ملک کے 6 بڑے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔یہ 17یا 18بڑی کمپنیوں کا مالک بنا چکا تھا ۔کئ ممالک میں ” اسواق السلام ” کے نام سے ان کے سپر مارکٹیں تھیں ۔یہ تین ارب ڈالر کا مالک بنا۔آخر اس نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے یہ کئی بار مراکش پارلیمنٹ کا ممبر رہے،ان گنت تمغے اعزازات ان کو ملکی اور عالمی سطح پر ملے لیکن اس کی وجہ شہرت دولت نہیں بلکہ اس کی ایمانداری تھی۔۔

*میلود کی تعلق*

یہ ایک عرب غریب چوراہے کا بچہ جو کہ ساری زندگی میں سکول کا گیٹ تک نہیں دیکھا ۔دنیا اور آخرت کی بہت ساری کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹنے کے بعد 2016 میں ہمیں یہ پیغام دے کر اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا کہ راہ طلب میں جذبہ کامل ہو تو منزلیں خود ہمیں ڈھونڈتی ہیں ۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ انسان بڑے گھرانے میں پیدا ہو۔

*آخری نصیب*

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ جتنی بھی ترقی کریں جتنی بھی شہرت اور مال ودولت کمائیں اپنے رب کی بغاوت پر کبھی بھی نہ اترنا اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو کبھی بھی حلال نہ کرنا ، اور کبھی بھی حالات کے بہاو میں بہتے نہ چلے جانا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *