“”بلوچستان میں عدالتی نظام و محکمہ تعلیم بلوچستان””
تحریر:- مصور شاہ
تمہید کچھ اس طرح باندھوں گا کہ محکمہ تعلیم بلوچستان بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کو یکسر نظر انداز کررہا ہے۔ آفیسرز کو پرواہ تک نہیں کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔سروس ٹربیونل سے لےکر سیکریٹری یہاں تک چیف سیکریٹری بھی چیف جسٹس آف بلوچستان کے سامنے پیش ہوکر بھی فیصلے پر عملدرآمد کرنے سے مجبور ہیں۔ کچھ اہم کیسز کے بہترین فیصلے ہیں جن پر چیف جسٹس آف بلوچستان نے تعلیمی مفاد کی خاطر فیصلے دیئے جن پر عملدرآمد مفت و معیاری تعلیم کے زمرے آتے ہیں۔ جب نعرہ لگتا ہے ” آؤ اسکول چلیں، تعلیم سب کے لئے، پڑھے گا بلوچستان تو بڑھے گا بلوچستان تو اس وقت مجھے آرٹیکل اے 25 یاد آتا ہے۔ اس کا مطلب تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔جہاں لفظ تعلیم آگیا وہاں “استاد” برحق ہوتا ہے۔ اس آرٹیکل پر عملدرآمد اس وقت ہوگا جب آپ ان کیسز کے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کریں۔ محکمہ تعلیم بلوچستان ان فیصلوں پر عمل درآمد کے بجائے ان کو مزید طول دے کر محکمہ کو چلانے والے چند جے ای ٹی و جے وی اساتذہ کو پریشان کررہا ہے۔ ویسے بھی محکمہ کے ماتحت ہزاروں پوسٹ خالی ہیں۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرکے رہی سہی کسر بھی ختم کررہا ہے۔ ملازمین مجبورا” ریٹائرمنٹ کی شرح کو بڑھا رہے ہیں۔ پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ ایک ایسا مسلہء ہے کہ پورے صوبے میں اس سال جتنے بھی ایس ایس ٹیز ریٹائر ہوکر پوسٹ خالی کرینگے ان پوسٹوں کا آدھا پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ کو مل جاتی ہیں۔ اس حساب سے پچھلے دس سالوں سے زائد پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ کے لئے خالی ہونے والی پوسٹوں کی تعداد دو ہزار کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ مطلب اسوقت پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ کی مد میں دو ہزار کے قریب پوسٹ خالی ہیں۔ اور دوسری طرف بلوچستان سروس کمیشن سے جو ایس ایس ٹیز آئے ہیں یا آغاز حقوق بلوچستان سے جو ایس ایس ٹی آئے ہیں ان میں سے کئیں اساتذہ کو کلسٹر لیول پر ہیڈ تعینات کرکے “سینئر جونیئر” نعرے کو دوام بخشا۔ پھر سے عدالت گئے عدالت نے بارہا فیصلہ دیا کہ چیف سیکریٹری صاحب سیکریٹری ایجوکیشن صاحب آپ لوگ سنیئر کو ان کا حق دو اِن کو اُس پوسٹ پر تعینات کرو جہاں ان کا مقام ہے۔ محکمہ کے سنیئر ہیں ان کی عزت احترام ہم سب پر لازم ہے اور یہ ہمارا اخلاقی جواز بنتا ہے۔ مگر عدالت کے اس فیصلے کو بھی پاؤں تلے روند کر جواز بنا کر پرانی روایت کو برقرار کرکے سنیئرز کو اسکول ماسٹر بنا کر لائن حاضر کرتے ہیں۔ جن کا کام پڑھانا انہیں آفیسر لگاتے ہیں اور جن کا کام ہے انتظام سنبھالنا انہیں کہتے ہیں سائڈ لائن ہوجاو۔ نتیجہ یہ نکل گیا کہ پبلک سروس کمیشن اور بلوچستان پیکج سے جو اساتذہ پڑھانے کے لئے جو بھرتی کیئے گئے انہیں بھی آفیسرز تعینات کرکے پورے محکمہ کے اسکولوں کو جے ای جے وی ٹیز کے کندھوں پر ڈال کر ان کو ان کے حق سے محروم کردیا ہے۔
جب بات پرسنٹ پرموشن کوٹہ کی ہو کچھ تنظیمیں نالاں ہوجاتے ہیں۔ پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ پر فیصلہ میں نے نہیں دیا ہے اور نہ ہی چیف جسٹس بلوچستان میرا قریبی عزیز ہے میرے لئے جو فیصلہ دے گا وہ جب انصاف کی کرسی پر بیٹھتا ہے جو اس کے فیصلے قانون کے مطابق ہونگے۔ جب وہ قانون کے مطابق فیصلہ دیتا ہے تو محکمہ تعلیم عمل درآمد نہیں کرتا۔ الٹا میں قصور وار کہ اس کی زبان بہت چلتی ہے پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ کے نام پر ناک میں دم کررکھا ہے۔
اگر تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے تو پچاس پرسنٹ پرموشن کوٹہ کے فیصلے اور سینئر جونیئر کے فیصلے پر عمل درآمد ضروری ہے۔
بہت خوب