معافی اور درگزر دوسروں کی غلطی اور قصور کو معاف کر دینے اور صبر کرنے کو کہتے ہیں ہم دوسروں سے بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود انھیں معاف کر دے اور اپنے غصے پر قابو رکھے تو ہم نے معافی اور درگزر سے کام لیا -بردباری سے مراد مشکل اور مصیبت کے وقت صبر و تحمل سے کام لینے اور برداشت کرنے کو کہتے ہیں
اسلام ہمیں معافی اور درگزر اور بردباری سے کام لینے کی نصیحت کرتا ہے اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں بھی رحیم و غفور اور کریم شامل ہے کیونکہ اللہ تعالی خود بھی انسانوں کے قصور اور غلطیاں معاف فرما دیتا ہے اور انسانوں کو بھی اس کی تلقین کرتا ہے کیا وہ بھی دوسروں کے قصور اور ناپسندیدہ رویوں کو معاف کر دے -ہمارے نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ بہترین مثال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہمیشہ معافی درگزر کرنے کی تلقین فرمائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو تو ایسی کھائی ہے اس میں معافی درگزر کا ذکر ملتا ہے -جیسے یہ دعا ہے جو ہم کو سکھائی گئی ہے
اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے تو معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے پس ہمیں معاف فرما دے
کفار مکہ نے آپ صلی اللہ وسلم اور اس کے ساتھیوں پر بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے یہاں تک کہ اب ظلم کو اپنے شہر مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی پھر بھی پتہ مکہ کے موقع پر نبی علیہ السلام نے سب کو معاف کر دیا -ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہے نبی اکرم صلی وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا اور کس سے انتقام لیا -قرآن کریم میں مسلمان کی خوبیاں بیان کی گئی ہے ان میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مسلمان غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں-نبی اکرم صلی وسلم کا ارشاد مبارک ہیں غصہ شیطانی عمل ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے جب کسی کو غصہ آئے تو وضو کریں -نبی اکرم صلی وسلم نہایت صبر وبرداشت کرنے والے تھے اس لیے اللہ تعالی نے نبی کریم صل وسلم کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے-
اے نبی علیہ السلام اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں اگر
آپ فروش روپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے
نبی اکرم صلی وسلم کی حیات مبارکہ میں صبر کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں نبی اکرم صلی وسلم تبلیغ اسلام کے لئےطائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے پ صل وسلم کا مذاق اڑایا اور پتھر مار مار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک لہو لہان کر دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کیا اور اللہ تعالی سے ان لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کی دعا فرمائیں -غزوہ احد میں نبی علیہ السلام کو کئ زخم آئے اور آپ صلی وسلم کے دودانت مبارک بھی شہید ہو گئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کوئی بد دعا نہیں کی بلکہ دعا فرمائی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت فرما کیوں کیوں نہیں جانتے کہ میں کتنا خیر خواہ ہوں
نبی اکرم صلی وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے یہ جو مخالف کو شکست دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے کو قابو میں رکھے -ایک ارشاد اور ہے کہ اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام ہے جو مزاج کا تیز نہ ہو نرم ہو اور لوگوں کے قریب آنے والا ہوں -اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارا اخلاق بھی اچھے بنائے اور ہم کو نرم دل بنائے اور دوسروں کو معاف کرنے والے اور صبر کرنے والا بنائے-
آمین ثم آمین