Skip to content

رسول مکرم ﷺکی زندگی کا معمول

رسول مکرم ﷺکی زندگی کا معمول
حضرت حسین بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر کے اندر جاتے تھے تو آپ کے کیا معمولات تھے ؟ انہوں نے کہا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر میں جاتے تھے تو آپ اپنے وقت کے تین حصے کرتے تھے، ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے، ایک حصہ گھر والوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اور ایک حصہ اپنی ذات کے لیے،

پھر جو حصہ اپنی ذات کے لیے تھا اس کو اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرماتے، پس اپنے خصوصی فیوض کو خاص صحابہ کے وسیلہ سے عام مسلمانوں تک پہنچا دیتے اور ان سے کوئی چیز روک کر نہ رکھتے، اور جو وقت حصہ امت کے لیے تھا، اس میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اصحاب فضلیت کو گھر میں آ کر ملاقات کرنے کی اجازت دیتے اور ان کی دینی فضلیت کی ترتیب کے اعتبار سے ان پر وقت کو تقسیم کرتے، ان میں سے کسی کو ایک چیز کی ضرورت ہوتی، کسی کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی اور کسی کو بہت ضروریات ہوتیں، آپ ان کی ضروریات پوری کرنے میں مشغول ہوتے، اور ان کو ان کی اپنی اور باقی امت کی اصلاح کے کاموں میں مصروف رکھتے اور ان سے ان کے مسائل معلوم کرتے، اور ان کے حسب حال ان کو ہدایات دیتے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : تم میں سے حاضر، غائب تک یہ ہدایات پہنچا دے اور تم میرے پاس ایسیے شخص کی حاجت بھی پہنچا دیا کر جو اپنی حاجت خود نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ جو شخص کسی ایسے انسان کی حاجات صاحب اختیارتک پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ثابت قدم رکھے گا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایسی ہی چیزوں کا ذکر کیا جاتا تھا،

اس کے علاوہ اور کسی ( فضول) بات کو آپ قبول نہیں کرتے تھے، مسلمان آپ کے پاس علم کی طلب لے کر آتے تھے اور جب واپس جاتے تھے تو علم کا ذائقہ چکھ چکے ہوتے تھے اور نیکی کے رہ نما بن چکے ہوتے تھے، پھر حضرت حسین (رض) نے اپنے والد (رض) سے پوچھا : گھر سے باہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کیا معمولات تھے ؟ حضرت علی (رض) نے بتایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف با مقصد کلام کرتے تھے، صحابہ کی تالیف کرتے تھے اور ان سے انسیت رکھتے تھے، ان کو متنفر نہیں کرتے تھے، آپ ہر قوم کے معزز آدمی کی تکریم کرتے اور اس کو اس کی قوم کا حاکم بنا دیتے، آپ لوگو کو اللہ کی نافرمانی سے ڈراتے اور لوگوں کو شر سے خود کو محفوظ رکھتے، اپنے اصحاب کے حالات کی تفتیش کرتے اور یہ معلوم کرتے کے عام لوگ کس حال میں ہیں، اچھی چیز کی تحسین اور تقویت کرتے اور بری چیز کی مذمت کرتے اور اس کو کم زور کرتے، آپ ہمیشہ میانہ روی سے کام لیتے اور مسلمانوں کے احوال سے غافل نہ رہتے، مبادا وہ غافل اور سست ہوجائیں یا اکتا جائیں، ہر حالت کے لیے آپ کے پاس مکمل تیاری ہوتی، آپ حق بات میں تقصیر کرتے نہ تجاوز کرتے، مسلمانوں میں سے بہترین لوگ آپ کے ہم مجلس ہوتے، جو شخص لوگوں کا زیادہ خیر خواہ ہوتا وہ آپ کے نزدیک افضل ہوتا، اور جو شخص لوگوں کے ساتھ زیادہ نیکی کرتا اور ان سے اچھا سلوک کرتا وہ آپ کے نزدیک بڑے درجہ والا ہوتا، حضرت حسین (رض) نے اپنے والد (رض) سے پوچھا : آپ کی مجلس کیسی ہوتی تھی ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نشست برخو است کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے، جب آپ کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جس جگہ مجلس ختم ہوتی تھی وہاں بیٹھ جاتے تھے، اور مسلمانوں کو بھی اسی بات کا حکم دیتے تھے، اور اپنے ہم نشینوں میں سے ہر ایک کو اس کا حصہ دیتے تھے، اور آپ کا کوئی ہم نشین یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ کوئی اور شخص آپ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز ہے، جب کوئی شخص آپ کے پاس بیٹھتا یا آپ سے گفتگو کرتا تو جب تک وہ خود نہ چلا جاتا آپ بیٹھے رہتے اور جو شخص آپ کے پاس اپنی حاجت پیش کرتا آپ اس کی حاجت پوری فرماتے یا نرمی سے عذر بیان کرتے، آپ کی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سب لوگوں کے لیے عام تھی، آپ سب مسلمانوں کے لیے بہ منزلہ باپ تھے اور آپ کی مجلس میں آپ کے نزدیک سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے،

آپ کی مجلس علم، حیا، صبر اور امانت کی مجلس تھی، اس میں نہ آوازیں بلند ہوتی تھیں اور نہ کسی پر عیب لگایا جاتا تھا، اگر بالفرض کسی سے غلطی ہوجائے تو اس کا آشکارا نہیں کیا جاتا تھا، آپ کے نزدیک تمام مجلس والے برابر تھے، بلکہ ان کو تقویٰ کی وجہ سے دوسروں پر برتری حاصل ہوتی تھی، وہ سب منکسر اور متواضع تھے، مجلس میں بڑوں کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، ضرورت مندوں کے لیے ایثار کرتے تھے اور مسافر کے حقوق کا خیال رکھتے تھے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٧٥٤، مسند احمد ج ٣ ص ١٣٢، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٧٨٤، الادب المفرد رقم الحدیث : ٩٤٦)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *