ہم کس قدر ہی ابن الوقت ہو جائیں, بے حس و خود غرض بن جایئں مگر موت ، قتل ، دہشت گردی، معصوم جوانوں کی لاشیں ، ٹھٹھرتی سردی، آہ و بقا کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وطن کی سالمیت، امن سکون، عدم تشدد کی پالیسی ایسے معاملات ہیں جو ہمیشہ سر فہرست رہیں گے۔ ایک پر امن معاشرے کی اقتدا منظور و مقصود ہمیشہ رہے گا پھر دوسرے امور قابل ذکر فہرست میں آ سکتے ہیں۔
بلوچستان کے حالات کبھی بھی ایسی آئیڈیل صورت حال پیش نہیں کرتے اس میں امن، خوشحالی، تعلیم و ترقی، باہمی یک جہتی کافی حد تک ناپید دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں دہشت گردی اور پھر کرونا کی لہر نے عام عوام کی کمر توڑ کے رکھ دیا ہے۔
فرقہ واریت کے پے در پے حملے اور ناقبل برداشت روئیے ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلتے چلے جا رہے ہیں۔
مفاد پرستی شیوہ اہلیان بلوچستان کے لئے الگ درد سر ہے۔ حالیہ واقعے نے جہاں سب کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا وہیں مفاد پرست عناصر بھی کھل کے سامنے آ نے لگے۔ جن کو کبھی اپنی گورنمنٹ کے دوران بلوچستان اور اس کے عوام کا خیال نہ آ یا وہ بھی ٹسوے بہاتے ،ڈرامہ کرتے دکھائی دئیے گویا ھوا کب کچھ نظر آ تے ہیں کچھ۔
مرنے والوں اور ان کے لواحقین کا دکھ اپنی جگہ بہت بڑا ہے مگر اس میں ایسے مطالبات کا رکھنا جو زیادہ تر وطن دشمنی پہ منتج ہوں کسی بھی محب وطن کے لئے تکلیف دہ امر ہے۔
دکھ کا مقام ہے کہ سا منے ذبح شدہ لاشیں پڑی ہوں اور مطالبات وطن دشمنی پہ مبنی ہوں ۔
پہلا مطالبہ ملک دشمن ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 15 دہشتگروں کی رہائی ہے جو پاکستان کی سالمیت کو تباہی کرنے کے لئے نہ صرف بھارت و ایران سے ملے ہوئے تھے بلکہ اپنی گرفتاری کے دوران با بانگ دہل اس کا اقرار بھی کر چکے ہیں۔
دوسرے مطالبے میں ہزارہ برادری کے جوانوں کے ہاتھوں گزشتہ جولائی میں تشدد سے شہید ہونے والے پشتون نوجوان بلال نورزئ کے قاتل جواد ہزارہ کی رہائی ہے۔
تیسرا مطالبہ تو بذات خود اک تھریٹ ہے جس میں ہزارہ برادری بغیر کسی پوچھ گچھ کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے کی سہولت مانگ رہی ہے۔
گویا ان معصوم بے گناہوں کی لاشوں پہ یہ سیاسی کاروبار کتنا منفعت بخش ہو سکتا ہے یہ تو وہ بے حس سیاسی و مذہبی تفرقہ ڈالنے والے ہی جانتے ہوں گے مگر بلال نورزئ کے والدین کا یہ بیان قابل توجہ ہے جس میں قاتل کو چھوڑنے پہ وہ خاندان کے ہمراہ خود سوزی کی دھمکی دے رہے ہیں ۔
گویا ایک بار پھر ایسی سازش رچی جا رہی ہے جس کے تحت بلوچستان کو تفرقہ و فساد کے حوالے کرنے کی کوشش کر کے بظائر نہ دکھائی دینے والا امن بھی دہشت گردی کی نظر کر دیا جائے۔
اس وقت ضرورت ہے ایسے پر امن و اتفاق سے کئے گئے حل کی جس کے تحت اس تکلیف دہ صورت حال سے بہ احسن و خوبی نکلا جا سکے۔
ایک طرف وزیراعظم پاکستان کے بلیک میل نہ ہونے کے فیصلے نے بھی کئ لوگوں کو بولنے کا موقع دے دیا ہے تو دوسری طرف محب وطن عوام جانتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر آ ج ملک کا سربراہ اس طرح لاشیں سامنے رکھنے والوں کے آ گے گھٹنے ٹیک دے گا تو کل ہر دوسرا گروہ یا فرقہ اسی حکمت عملی کو اپنا کے اپنے جائز نا جائز مطالبات منوانے کی کوشش میں سر گرداں نظر آ ئے گا اور دن کو بھی یہ پالیسی اپنانے کا موقع مل جائے گا ۔ پھر دشمن کا جاتا بھی کیا ھے موت کا یہ کھیل تو مظلوم کمزور عوام کو ہی جھیلنا پڑتا ہے ۔
یہ گیارہ لاشیں بھی ان ہی ماڈل ٹاؤن کی لاشوں کی طرح مقدس ہیں جن کی داد رسی تو دور کی بات میڈیا کوریج بھی ممکن نہ تھی کیونکہ اس میں حاکم وقت شامل تھا۔ یہ لوگ ہائ وے پہ شہید ہونے والے ان ہی لوگوں کی طرح اہم ہیں جن کو بچوں کے سامنے دہشتگرد قرار دے کے گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ یہ ایف سی کے ان جوانوں کی طرح ماں کی آ نکھوں کی ٹھنڈک ہیں جو پرچم میں لپیٹ کے زمین کا رزق بنا دئیے جاتے ہیں صرف یہ کہہ کر کہ
تم کو یہ مٹی پیاری تھی سمجھو مٹی میں ملا دیا ۔
مگر آج یوں دو گز زمین کے منتظر مٹھی بھر مٹی کے لئے کیوں سڑکوں پہ رلا دئیے گئے ہیں کیا یہ ان کی لاشوں کی بے حرمتی نہیں کہ ان کے عوض ملک دشمنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔
سوچ کا مقام ہے کہ اس طرح ہم کس کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں اور کس کے ساتھ دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
شبانہ اشرف
Thursday 7th November 2024 12:43 pm