سب خوبیاں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے ظالموں کو ہلاک کیا۔بندوں کو ستانے والوں کا رعب و دبدبہ خاک میں ملا دیا۔ساری کی ساری کائنات اس کے فضل کے گن گا رہی ہے پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں زبانیں اس کے شکر میں ترہیں۔اللہ پاک نے قرآن مجید میں دریائے نیل کے بارے میں فرمایا ہے کہ”پھر اس سے زمین میں چشمے بنائے”۔۔۔۔ اور انہیں اپنی حکمت اور دانائی کے مطابق لمبائی اور چوڑائی میں تقسیم کردیا تو ان سے نہریں بیہ نکلیں اور کچے تالابوں سے پانی زوروشورکے ساتھ نکلنے لگا۔اور اس نے دریائے نیل کو تمہارے لیے ایک بڑی نشانی بنایا۔اس کی مضبوطی تعجب خیز، بہائو خوشگواراور خوشبو نہایت پاکیزہ ہے۔عظمت وشان کا حامل ہے۔اللہ نے اسے اپنی قدرت وحکمت کے عجائب وغرائب پر دلیل بنایا ہے۔
پاک ہےوہ ذات جس نے اس دریا کو مصر کے ساتھ خاص فرمایا۔یہ عظیم دریا بڑا تعجب خیز ہے کہ گرمیوں میں بھر جاتا ہے،سردیوں میں اتر جاتا ہے۔جب دوسرے پانی رک جاتے ہیں تو یہ بہنے لگتا ہے اور جب سردی ظاہر ہونے لگتی ہیں تو یہ دریا حاجات و مقاصد بر لاتا ہے۔دلوں کو مسرت و فرحت سے لبریز کرتا ہے۔یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ کس طرح اس نے دریائے نیل کو مصر کے بالائی شہروں سے گزارا یہ بہت تعجب خہز اور انوکھا ہے۔اس کا پانی سب پانیوں سے تھنڈا اور میتھا ہے۔
دریائے نیل اور فرعون۔
فرعون زمین پر خدائی کا دعوےدار تھا۔اس نے دریائے نیل کے ذریعے قوم کو گمراہ کر رکھا تھا۔جب آتش پرستوں کی عید کا دن آتا تو دریائے نیل ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔ لوگوں میں یہ اعلان کر دیا جاتا کہ فرعون نے تمہارے لیے نیل کو پرجوش کردیا ہےلہذہ تم اسے سجدہ کرو تو جاہل لوگ اسے سجدہ کرتے۔ایک سال اللہ نے نیل کو جاش مارنے کی اجاذت نہ دی۔قحط سالی ھوئی لوگ بھوک سے مرنے لگے۔تمام لوگ اکٹھے ہوکر فرعون کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ہم اور ہمارےن جانور بھوک سے مر رہے ہیں اگر تم واقعی ہمارے خدا ہو تو دریائے نیل کا پانی جاری کرو۔فرعون نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا۔ پھر وہ ایک ویران جزیرے کی ترف چلا گیا اور حکم دیا کہ اس کے پیچھے کوئی نہ آئے۔
اب اس نے جزیرے میں داخل ہوتے ہی اپنا شاہی لباس اتار دیا راکھ زمیں پر بکھیر کر اس پر لوٹ پؤٹ ہو کر رونے لگا۔ اور اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگنے لگا،
“اے میرے مالک!میں جانتا ہوں کہ تو ہی زمین وآسمان کا مالک ہے۔لیکن مجھ پر بدبختی غالب آگئی۔میں تیری نافرمانی وسرکشی میں بہت آگے بڑھ گیا۔تو میرا معبود ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔اب مجھے میری قوم میں زلیل و رسوا نہ کر اور تو ہی سب سے بڑھ کر کرم فرمانے والا ہے،”
ابھی فرعون کی دعا پوری نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے دریائے نیل کو حکم دیا کہ جہاں تک فرعون جائے دریائے نیل بھی اس کے ساتھ جائے۔چنانچہ فرعون اپنی قوم میں اس حالت میں جا رہا تھا کہ دریائے نیل کا پانی اس کے ساتھ ساتھ جارہا تھا۔اور لوگ اپنی آستینوں کو پانی اور کیچڑ میں ڈبو کرخوشی سے ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔اس وقت سے اب تک مصر میں خوشی منانے کا یہ طریقہ رائج ہے اور مصری لوگ اسے یوم نوروز یعنی دریائے نیل کی طغیانی کا دن کہتے ہیں،
سبٖق۔
فرعون اللہ کا دشمن تھا جو کہ ایک لمحے کے لیے اللہ کے ساتھ مخلص ہوا تواللہ نےاس کی طلب کے مطابق عطا کیا،اس کی پردہ پوشی کی اور اسے قوم میں زلیل ورسوا ہونے سے بچا لیا۔تو جو شخس ساری زندگی اخلاص کے ساتھ اللہ کی اطاعت وعبادت کرتا رہے تو وہ اسے کس قدر انعامات سے نوازے گا۔اور آخرت میں کیا کچھ انعامات عطا فرمائے گا۔اسی طرح جب کوئی نافرمان بندہ اپنے گناہوں سے تائب ہوجائے اور اپنی خامیوں اور گناہوں کا اعتراف کرلے۔ بارگاہ الہی میں گڑگڑائے تو اللہ اس سے پاک ہے کہ اسے بروز قیامت اسے عذاب دے یہ سب کے سامنے ذلیل کرے۔