Home > Articles posted by Zeeshan Khalid
FEATURE
on Jan 7, 2021

فیدل کاسترو، جس نے صرف 32 سال کی عمرمیں کیوبا میں انقلاب برپا کیا۔جب وہ دارلحکومت ہوانا میں اپنی فاتحانہ تقریر کر رہا تھا تو ایک فاختہ اُس کے کندھے پر آ کر بیٹھ گئی۔ تقریر سننے والی عوام نے اِسے غیبی اِشارہ سمجھا کہ خدا نے اِس کو ہماری قیادت کے لئے چُن لیا ہے۔ تا دمِ مرگ وہ کیوبا کی عوام کا ہیرو رہا اور آ ج بھی ہے۔ ابتدائی زندگی 1940 میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ کو کیوبا سے انگریزی میں تحریر کیا ہوا ایک خط ملا، جس میں روزویلٹ کو تیسری بار صدر بننے پر مبارک باد دی گئی تھی اور ایک انوکھی فرمائش بھی کی گئی تھی، اِس میں لکھا تھا کہ مجھے ایک دس ڈالر کا نوٹ بھیج دیں کیونکہ میں نے یہ نوٹ کبھی نہیں دیکھا۔ وائٹ ہاؤس نے اِس لڑکے کو شکریہ کا جواب تو بھیج دیا لیکن دس ڈالر کا نوٹ نہیں بھیجا۔فیدل کاسترو مشرقی کیوبا کے ایک بہت بڑے جاگیر دار کا بیٹا تھا جس کے پاس پچیس (25) ہزار ایکڑ زمین تھی، جس میں وہ گنے کی فصل کاشت کرتا تھا۔ کاسترو اپنے قصبے سے بہت دور دارلحکومت ہوانا میں پڑھنے آیا تھا۔ لیکن پڑھنے سے زیادہ اِس کی دلچسپی سیاست میں تھی۔ یونیورسٹی آف ہوانا طلباء تنظیموں کا گڑھ تھی۔ کاسترو بھی یونیورسٹی کی سیا ست کا حصہ بن گیا۔ وہ طلباء تنظیموں کی میٹنگز میں جاتا اور خطاب بھی کرتا، اور اپنی تقریروں سے سما باندھ دیتا۔ عملی سیاست کا آغاز 1947 میں کاسترو نے کیوبا کی آرتھوڈوکس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1952میں کاسترو پارلیمنٹ کی نشست کے لئے اُمیدوار بن گیا۔ لیکن یہ الیکشن ہوا ہی نہیں۔ کیونکہ الیکشن سے صرف تین ماہ پہلے کیوبا کے سابق صدر بیتیستا نے فوج کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا، اور تمام سیاسے جماعتوں پر پابندی لگا دیں اور مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا اور تنقید کرنے والے اخبارات بند کر دیے۔اُس وقت تک کاسترو وکالت کی ڈگری مکمل کر چکا تھا اور ہوانا میں وکالت کی پریکٹس کر رہا تھا۔ لیکن جب کیوبا میں بیتیستا کی حکومت آئی تو کاسترو نے اپنے پر سکون زندگی چھوڑ کر ہتھیار اُٹھا لئے۔ انقلاب کی پہلی ناکام کوشش 26 جولائی 1953 کو 26 کاروں کا ایک قافلہ فوجی بیرکس کی طرف بڑھا۔ اِن گاڑیوں میں کاسترو اور اُس کے ایک سو سات ساتھی اسلحے کے گودام پر قبضہ کرنے کے لئے سوار تھے۔ لیکن بیرکس میں موجود فوجیوں نے اُن پر فائرنگ کر دی، جس سے کاسترو کے آٹھ ساتھی مارے گئے۔ اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ وہ پہاڑوں کی طرف فرار ہوا مگر پانچ روز کے بعد پکڑا گیا۔ اُس پر غداری کا مقدمہ چلا اور پندرہ سال کی سزا سنائی گئی۔لیکن جیل کی زندگی کاسترو کے لئے نعمت ثابت ہوئی۔ اُس نے جیل میں کتابیں پڑھنا شروع کی اور اپنی تقریریں اور انقلابی نظریات لکھ کر جیل سے باہر سمگل کرنا شروع کر دیے۔ اِس کے حامیوں نے اِن کی کاپیاں کیوبا کے کونے کونے میں پھیلا دیں۔ 1954 میں صدر بیتیستا نے جعلی صدارتی انتخابات کروا کر اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ اور اِس فتح کی خوشی میں میں کاسترو سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رِہا کر دیا۔ رہائی کے بعد کاسترو نے میکسیکو سٹی میں ڈیرے ڈال لئے اور وہاں رہنے والے کیوبا کے شہریوں کو مسلح انقلاب کی تربیت دینا شروع کی۔ اِ س بات پر میکسیکو کے حکام نے کاسترو کو جیل میں ڈال دیا۔چے گویرا کو بھی مدد کے الزام میں جیل میں کاسترو کے ساتھ ہی سیل میں رکھا گیا۔(چے گویرا کی کہانی آپ کو آیئندہ سنائی جائے گی)۔ جلد ہی حکام نے دونوں کو جیل سے رِہا کر دیا۔ رہائی کے بعد کاسترو نے اپنی جدو جہد تیز کر دی۔ اِس نے گوریلا جنگ پر کتابیں پڑھیں اور اپنے ساتھیوں کو بھرپور تربیت دی۔ امریکا اور میکسیکو میں رہنے والے دولت مند کیوبا کے شہریوں نے بھی دِل کھول کر کاسترو کو پیسا دیا۔ انقلاب کی دوسری کوشش دسمبر 1956کی ایک رات جب کاسترو اپنے ساتھیوں کے ساتھ سمندری راستے سے کیوبا کے ساحل پر پہنچا تو وہاں موجود بیتیستا کے فوجیوں نے اُن پر حملہ کر دیا۔ ستر کے قریب انقلابی وہیں مارے گئے یا پکڑے گئے یا بھاگ نکلے۔ کاسترو اور اُس کے باقی بچے ساتھی بمشکل جان بچا کر بھاگے اور پہاڑوں میں پناہ لی۔ یہاں کاسترو نے اپنا فوجی اڈا بنا لیا اور مقامی آبادی کی مدد سے گوریلا فوج بھی تیار کر لی۔ شروع میں یہ تعداد چند سو تھی لیکن آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔ جب بھی بیتیستا کی فوج اِن کو ڈھونڈنے علاقے میں داخل ہوتی تو کاسترو کی فورس اِسے پیچھے دھکیل دیتی۔ کامیابیوں کا آغاز 1958 میں کاسترو نے حاکومت پر جوابی حملے شروع کر دیے۔ کاسترو کو اُس وقت جنگ میں کامیابی ملی جب چے گویرا کی قیادت میں انقلابیوں نے سانتا کلارا کے شہر پر قبضہ کر لیا۔اس کے چند روز بعد صدر بیتیستاکیوبا سے فرار ہو گیااور حکومتِ ہوانا پر کاسترو کے حامیوں کا قبضہ ہو گیا۔ جب کاسترو ہوانا میں داخل ہوا تو اُس کے استقبال کے لئے گلیاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ انقلاب آ چکا تھا۔ امریکا اور سوویت روس کی لڑائی میں کاسترو کا جھکاؤ روس کی طرف تھا، جس کی وجہ سے امریکا نے اُس کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اِس مقصد کے لئے امریکا میں موجود کیوبن شہریوں کو تربیت اور اسلحہ دے کر کیوبا پر حملہ کروا دیا گیا۔ لیکن خفیہ اطلاعات کی وجہ سے کاسترو پہلے ہی حملے کے لئے تیار تھا۔ فوج نے حملہ آووروں کو گھیر لیا اور حملہ آوور جلد ہی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔کیوبا کی فوج نے حملہ آووروں کی مدد کے لئے آنے والے امریکی طیارے بھی مار گراے۔اِس واقعے کے بعد کاسترو امریکہ کے اور بھی خلاف ہو گیا اور کھل کر اپنے کیمونیسٹ ہونے کا اعلان کر دیا۔ دسمبر 1961 کو اپنے ٹی وی خطاب میں کاسترو نے کہا کہ “میں مارکسسٹ اور لینینیسٹ ہوں اور اپنی آخری سانس تک یہی رہوں گا ملکی معیشت امریکا نے کیوبا پر تجارتی پابندیاں جاری رکھیں