ایک نہیں دودماغ ہر انسان کے سر میں ایک نہیں دو دماغ ہوتے ہیں ۔ یہ مذاق نہیں ہے بلکہ سائنس دان یہ بات ثابت کر چکے ہیں۔ گویا ہم عقلیں بھی ایک نہیں دو رکھتے ہیں۔ اب ایک عقل یا دماغ سے منسوب تمام محاورے اور ضرب المثال فرسودہ ہو جائیں گی۔ (سائنس اکثر ادب و روایات پر ظلم ڈھاتی رہتی ہے)۔ ہمارا دماغ دراصل دائیں اور بائیں دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کا رابطہ محض عصبی ریشوں کی ایک پٹی کارپس کالوسم سے استوار ہے۔ یہ بالکل علیحدہ شناخت رکھتے ہیں ۔ دماغ کے عقب میں واقع کارپس کالوسم کو گویا دو پروسیسروں کے مابین “نیٹ ورک کنکشن” سمجھیے،ایسے پروسیسر جو انتہائی طاقت ور و تیز رفتار ہیں اورمختلف پروگرام چلاتے ہیں۔ قدرت کا عجوبہ دیکھئے کہ ہمارے بدن کے دائیں نصف حصے پر بائیاں دماغ جبکہ بائیں حصے پر دایاں دماغ حکمرانی کرتا ہے۔ یہ انہونی کیوں ارتقا پذیر ہوئی اس کے متعلق صرف خدا ہی جانتا ہے۔ بہرحال یہ اصول ہمارے کانوں آنکھوں حتی کہ ناک کے دونوں نتھنوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ امریکا کے ماہر عصبيات را جرمپیری پہلے شخص ہیں جنہوں نے انسان میں دو دماغ در یافت کیے ۔ ہوا یہ کہ ایک شخص پر شدید دورے پڑتے تھے۔ علاج کی تجویز ہوا کہ اس کا ایک حصہ دماغ نکال دیا جائے ورنہ وہ پاگل ہوجائے گا۔ یہ حصہ کارپس کالوسم تھا جسے بذریہ آپریشن علیحدہ کردیا گیا۔ سرجری کے بعد چند ہفتوں میں مریض نارمل ہو گیا ۔ لیکن پھر مختلف ٹینٹوں سے انکشاف ہوا کہ اس کے روز مرہ معمولات میں انقلابی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ یہ کہ دماغ کے دونوں حصے آزادانہ کام کرنے لگے تھے۔ گو اس کے چلنے پھرنے، بولنے اور کھانے پینے پر کوئی فرق نہیں پڑامگر روز مرہ کے کئی معمول اس انہونی سے بدل گئے۔ مثال کے طور پر مریض کی بائیں آنکھ اور ہاتھ مختلف چیزوں مثال کے طور پر پینسل کا نام تو پہچان لیتے مگر اسے یہ یاد نہ آتا کہ یہ کس کام آتی ہے اور جب مریض کی دائیں آنکھ اور ہاتھ کو کینسل دکھائی گئی تو وہ اسے استعمال کرنے لگا مگر اسے اس کا نام یاد نہیں آیا۔ اس قسم کے مزید تجربات سے انکشاف ہوا کہ خیالات کے مختلف عمل ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ دائیں اور بائیں دماغ میں جنم لے رہے ہیں۔ ان تجربات سے یہ ایک بات نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ دماغ کے دونوں حصے سوچ، عمل کرنے اور کئی دیگر شعبوں میں انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس دریافت نے دنیائے میں سائنس میں ہل چل مچادی ۔ نیز اسی تحقیق پر راجر پیری کو نوبل انعام برائے طب ملا۔ بعدازاں جدید طب میں ترقی ہوئی تو دماغ کے متعلق حیرت انگیز انکشافات سامنے آنے لگے۔ حال ہی میں ایک تاریخی انکشاف رونما ہوا۔ ایک بچے پر مرگی کے شدید دورے پڑتے تھے۔ ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ بیماری کا مرکز دماغ کے دائیں حصے میں ہے۔ بچے کی جان بچانے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ دماغ کا متاثرہ نصف حصہ نکال دیا جائے۔ والدین نے ہامی بھر لی تو بچے کا آپریشن ہوا اور اس کے دماغ کا دایاں حصہ نکال لیا گیا۔ ڈاکٹروں کو علم تھا کہ دماغ کا خالی حصہ جلد ہی ایک قسم کے مواد اسیریبیروسپائنل سے بھر جائے گا۔ مگر جب بچے کو ہوش آیا تو حسب توقع ان تمام فنکشز میں ہے قاعدگی پیدا ہوئی جو دائیں حصہ دماغ سے احکامات لیتے تھے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ گو معمول کی زندگی میں پلٹتے ہوئے بچے کو ایک سال لگ گیا مگر پھر وہ کامیابی سے روز مرہ کے کام کرنے لگا۔ گویا ایک سال میں بائیں حصہ دماغ نے خود نئی وضع میں ڈھالا اور ایک مکمل دماغ کی مانند کام کرنے لگا۔ یہ کوئی معمولی انکشاف نہیں بلکہ قدرت کے انتہائی عجیب وغریب کرشموں میں سے ایک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کے نزدیک دماغ میں ایک نصف حصہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی باعث دونوں حصوں کا تال میل بگڑ جائے تو انسان پاگل ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیشتر ذہنی امراض دائیں اور بائیں دماغ کی ہم آہنگی ختم ہونے سے ہی جنم لیتے ہیں۔ دماغ کے دونوں حصوں میں کتنا تال میل مدنظر رکھ کر درحقیقت تمام انسانوں میں مختلف شخصیت پیدا ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا میں بیشتر انسان دائیں ہاتھ سے کام کرتے اور دایاں حصہ جسم ہی زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ گویا معمول کی زندگی میں بائیں حصہ دماغ کو اپنے معاصر پر برتری حاصل ہے لیکن دایاں حصہ دماغ بھی کم اہم نہیں کیونکہ وہی تخلیق creativity) سے متعلق ہے۔عام طور پر ہمارے دماغ کے دونوں حصے مل جل کر کام کرتے ہیں تا ہم ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھی دونوں دماغ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہو پاتے یہی وجہ انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر پریشان کر دیتی ہے کیونکہ ہمارا شعور ایک حصہ دماغ کی بات ہی مان سکتا ہے۔ شعور کو تو ایک ہی کی بات ماننا ہوتی ہے۔ لہذا اس بات پر دونوں کے مابین کشمکش جنم لے لیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق عام حالات میں یہ جنگ بایاں حصہ دماغ ہی جیتتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں دماغ کے مابین سمجھوتوں کی وجہ سے ہی بیشتر انسان اپنی کامل ذہنی استعداد حاصل نہیں کر پاتے۔ بہت کم انسانوں میں دونوں دماغ ایسی زبردست ہم آہنگی ہی سے کام لیتے ہیں۔کہ وہ کامل ذہنی استعداد حاصل کر لیں ۔ یہی لوگ پھر ایجادات کرتے، شاہکار ادب، مصوری و موسیقی تخلیق کرتے اور اپنے اپنے شعبوں میں زبردست کارنامے سر انجام انجام دیتے ہیں۔ یوں کہ لیں کہ جس انسان کے دونوں دماغ میں انتہائی ہم آہنگی موجود ہوئی وہ عام انسانوں سے اعلی ذہنی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ بیشتر لوگوں پر بائیں حصہ دماغ کی حکمرانی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جذبات، خیالات، روحانیات اورتخلیقی قوتوں پر عقل، حقائق اور حکمت عملی کوترجیح دیتے ہیں۔
ہٹلر جرمن تھا بلکہ وہ جرمنی کے مشرقی ہمسایہ ملک آیٹیریا بنگری میں پیدا ہوا تھا جو اب آسٹریا اور ہنگری نام کے دو ممالک میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ۔ہٹلر نے وہیں تعلیم حاصل کی۔ اپنے والدین کے مرنے کے بعد اس نے ایک مصور کےطور پر اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کی لیکن اس شعبے میں وہ بری طرح ناکام رہا۔ کم آمدنی کے باعث اسکی جوانی کی ابتدا تنگدستی سے ہوئی۔ جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا تو بے روزگاری سے تنگ آکر ہٹلر نے اپنے ملک آسٹریا ہنگری کی فوج میں بھرتی ہونے کیلئے امتحان دیا لیکن اسے بھرتی کرنے سے انکار کیا گیا۔ کمانڈرنے ہٹلر سے کہا کہ تم اتنے کمزور ہو کہ رائفل نہیں اٹھا سکتے جنگ کیا خاک لڑو گے؟ بٹلر نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد جلد ہی اس کی قبر پر جانا چھوڑ دیا ۔ وہ اسکے سخت گیر رویے کی وجہ سے اس سے نفرت کرتا تھا لیکن اسے اپنی ماں سے بے حد محبت تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں جب اسکی شکست یقینی ہو گئی تو وہ ایک زیر زمین بنگر میں جا چھپا۔ اس بنکر میں اس نے خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اس بنکرکے ایک کونے میں ہٹلر نے اپنی ماں کی تصویر لگا رکھی تھی۔ وقت انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے ۔ ہٹلر نے آغاز جوانی میں ایک عظیم مصور بننے کاخواب دیکھا تھا۔ ماں باپ کی وفات کے بعد وہ تصویریں بناتا مختلف محفلوں میں بیچ کر روزی روٹی کماتا تھا لیکن آسٹریا ہنگری کے ولی عہد پر گولی چلنے کے باعث پہلی جنگ عیم چھڑ گئی ۔ اس جنگ کی وجہ سے عالمی فوجیں اپنے بھرتی کے معیار کم کرنےمجبور ہو گئیں اسطرح ہٹلر بھی آسانی سے بھرتی ہو گیا۔ بعد میں ہٹلر نے جب نازی تنظیم کھڑی کی تو مصوری کی مہارت اس کے بہت کام آئی – اپنی تنظیم کا لوگو اور جھنڈا ہٹلر نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا تھا۔ اپنی فوج کی وردی اور بیجز بھی اس نے خود ڈیزائن کیے۔ پہلی جنگ عظیم ہو کہ ہٹلر نے ایک عام فوجی کے طور پر لڑی، اس میں وہ اتحادیوں کے کیمیکل ہتھیاروں کا شکار ہوا ۔ جس کی وجہ سے وہ وقتی طور پر اندھا ہو گیا۔ لیکن مختصرعلاج کے بعد اس کی بصارت ایک بار پھر سے کام کرنے لگی اور اس کو پہلے کی طرح دیکھائی دینے لگا ۔ ہٹلر کو اپنی رشتے کی بھتیجی (23) سالہ گیلی رابا سے عشق ہو گیا۔ کیلی نے ایک بار اپنی دوست سے کہا کہ میرے چچا مجھ سے ایسے ایسے مطالبے کرتے ہیں کہ کسی کو بتاؤں تووہ یقین تک نہ کرے۔ مگر یہ راز زیادہ دیر تک چھا نہ رہ سکا اور یہ سکینڈل اخبارات میں دھول اڑانے لگا۔ ہٹلرکی زندگی تلخ ترین ہو گئی اور اسکے سوشلسٹ مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس پر گیلی نے بدنامی کے خوف سے خود کشی کر لی جسے مخالفین نے قتل قرار دے دیا۔ قرب تھا کہ ہٹلر کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتا لیکن ایسے میں اسے گیلی سے ملتی جلتی لڑکی (19) سالہ ایوا برائون مل گئی ۔ کہتے ہیں کہ یہ لڑکی ہٹلر سے عشق کرتی تھی۔ اس لڑکی کو ہٹلرکے فوٹوگرافر نے ہٹلر تک پہنچایا ۔ ہٹلر نے ایوا سے شادی کا اعلان کر کے مخالفین کےمنہ بند کر دیے۔ ہٹلر نے اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے ہی اس نے ایوا سے شادی کی جس کے بعد اس نو بیاہتہ جوڑے نے خودکشی کرلی -ہٹلر کی ایک عجیب عادت یہ تھی کہ وہ تقریر سے پہلے ہی مختلف انداز میں تصویریں بنا کر دیکھتا تھا کہ اس کا کون سا انداز کیسا لگ رہا ہے ۔ اس کام کیلئے اس نے ایک مستقل فوٹوگرافر رکھا ہوا تھا۔ ہٹلر جیسی مو نچھیں جرمنی میں پہلے ہی رواج پا چکی تھیں، ہٹلر جنگ عظیم اول میں ایک خندق میں چھپا بیٹھا تھا کہ اتحادیوں نے گیس شیل پھینک دیا۔ گیس شیل کے زہریلے دھویں سے بچنے کیلئے ہٹلر نے جب دستیاب ماسک پہننے کی کوشش کی تو ماسک اسکی بڑی بڑی موچھوں سے اٹھنے لگا ۔ جس پر ہٹلر ماسک نہ پہن سکا اور مجبورا اسے کئی سیکنڈ تک سانس روکنا پڑی۔ گیس کا اثر ختم ہوتے ہی اس نے سکھ کا سانس لیا اور جتنی موچھیں ماسک پہننے میں رکاوٹ بن رہی تھیں انہیں اندازے سے کھیچ کر اپنے چہرے سے جدا کر دیا کیونکہ گیس شیل کسی بھی وقت دوباره آسکتا تھا اور ہٹلر کو اپنی زندگی مونچھوں سے زیادہ پیاری تھی۔ اس طرح اس نے اپنی مونچھوں کے سٹائل کو ہمیشہ کے لیے برقرار رکھا جو کہ آج تک اسکی پہچان ہے۔ دوسری جنگ عظیم اور اسکی خودکشی کے بعد اسکی موت اور زندگی کے بارے میں بھی کافی کانسپریسی تھیوریز موجود ہیں اور بہت سے لوگوں نے اسکو دیکھنے کا بھی دعوی کیا تھا۔ لوگوں کہنا یہ تھا کہ ہٹلر نے درحقیقت خود کشی نہیں کی تھی بلکہ وہ بھیس بدل کر بھاگ گیا تھا۔ لیکن اسکے بعد وہ کبھی منظر عام پر نہیں آیا ۔ اس لیے اسکی خود کشی کو ہی تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کا ثبوت بعد میں روس نے اسکے باقیات اور دانتوں کے ڈی این اے سے نکالا تھا کہ جس شخص کو آگ میں جلایا گیا تھا وہ خود ہٹلر تھا۔
اے آر وائی ڈیجیٹل اپنے ڈراموں کی وجہ سے شوبز کی دنیا میں الگ مقام رکھتا ہے۔ اس چینل کے کچھ ڈرامے ایسے ہیں جنہوں نے ناظرین میں بے حد پزیرائی حاصل کی۔ زیل میں ہم ایسے ہی 6 بہترین ڈراموں کی بات کریںگے جو زندگی میں لازمی دیکھنے چاہییں- نمبر1- ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو؛ میرے پاس تم ہو ڈرامہ 2019 میں آر وائی ڈیجیٹل پر نشر کیا گیا تھا جسے خلیل الرحمن قمر نے تحریر کیا تھا اور اس ہمایوں سعید اور شہزاد نصیب نے نے پروڈیوس کیا۔ اس ڈرامے کی اسٹار کاسٹ میں ہمایوں سعید بطور دانش، عائزہ خان بطور مہوش، عدنان صدیقی بطور شہوار اور حرا مانی بطور ہانیہ شامل ہیں۔ یہ ڈرامہ کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے خلیل الرحمن قمر کے تحریر کردہ سب سے زیادہ شہرت پانے والے ڈراموں میں سے ایک ہے۔ اس میں محبت اور دولت کی جنگ دکھائی گئی ہے۔ دولت کے آگے محبت کو ہارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دانش اور مہوش کی خوشی خوشی بسر ہونے والی شادی شدہ زندگی تب خراب ہو جاتی ہے جب ایک دولت مند شخص شہوار پر ان کی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ مہوش زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کے لیے پیار کرنے والے شوہر دانش کو چھوڑ کر دولت مند آدمی شہوار کے پاس چلی جاتی ہے۔ آخر میں دانش کی موت ہو جاتی ہے جس کو دیکھ کر ناظین جذباتی ہو گئے۔ سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بہت ساری ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دانش کی موت کو دیکھ کر کس طرح لوگ جذباتی ہوگئے۔ نمبر2- ڈرامہ سیریل ایسی ہے تنہائی؛ ایسی ہے تنہائی ڈرامہ کو اے آر وائی ڈیجیٹل پر 2017 میں نشر کیا گیا تھا۔ اس ڈرامے کی کہانی محسن علی نے لکھی ہے اور اسے فہد مصطفیٰ نے پروڈیوس کیا۔ اس میں سمیع خان اور سونیا خان نے اس کے مرکزی کردار نے ادا کیے۔ اس ڈرامے سمیع خان نے حمزہ کا رول نبھایا ہے اور سونیا خان نے پاکیزہ کا رول نبھایا ہے۔ یہ ڈرامہ بھی ایک بہت اچھا سبق ناظرین کو دیتا ہے اور لوگوں کو یہ سمجھاتا ہے کس طرح سے ایک غلطی انسان کی زندگی برباد کرسکتی ہے۔ اس ڈرامے میں حمزہ اور پاکیزہ کلاس فیلو ہوتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور جلد ہی ان کی منگنی ہو جاتی ہے۔ حمزہ پاکیزہ سے مطالبہ کرتا ہےکہ وہ اس کے ساتھ اپنے پیار کو ثابت کرے۔ پاکیزہ اپنا پیار ثابت کرنے کے لیے اپنی برہنہ تصاویر لے لیتی ہے اور حمزہ کو دکھانے کی کوشش کرتی ہے جس سے وہ انکار کر دیتا ہے۔ اس کے فورا بعد ہی وہ موبائل غنڈوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور موبائل فون چھیننے کے دوران وہ پاکیزہ کو گولی بھی مار دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہیں اور کا انجام پاکیزہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ نمبر3- ڈرامہ سیریل بے دردی ڈرامہ سیریل بے دردی کو 2018 میں اے آر وائی ڈیجیٹل کی طرف سے پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے کو کو شگفتہ بھٹی نے تحریر کیا ہے. اس کے مرکزی کردار آفان وحید، ایمن خان، بشری انصاری، ثناء فخر اور کاشف محمود نے ادا کیے۔ یہ ڈرامہ ایک سبق آموز ڈرامہ ہے جو کہ لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ کس طرح سے ایک چھوٹی سی غلطی زندگی تباہ کرنے کے لیے کافی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو سب کو یاد ہونا چاہیے۔ اس ڈرامے میں ایچ آئی وی ایڈز کے مسئلہ کو دکھایا گیا ہے۔ ایمن خان کو اس بیماری میں مبتلا دکھایا گیا ہے۔ یہ بیماری ان کو ان کے شوہر سے منتقل ہوتی ہے لیکن صرف ان کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف ان کے شوہر کو کوئی بھی الزام نہیں دیا جاتا۔ نمبر4- ڈرامہ سیریل چیخ ڈرامہ سیریل چیخ اے آر وائی ڈیجیٹل پر سال 2019 میں پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ فہد مصطفی اورڈاکٹر علی کاظمی کی طرف سے بنایا اور پروڈیوس کیا گیا۔ اس کی کاسٹ میں صباء قمر، عماد عرفانی، اعجاز اسلم، بلال عباس خان، اشنا شاہ اور اذکاء دانیال شامل ہیں۔ اس ڈرامے کے ڈائیلاگز، ایموشنز اور سسپنس ناظرین کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اس ڈرامے میں صبا قمر کی ایکٹنگ اور کہانی کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ صبا قمر کو بطور منت، اشنا شاہ کو بطور نایاب اور اذکاء دانیال کو بطور حیا تاثیر آپس میں بہترین دوستوں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ عماد عرفانی کو بطور شایان، اعجاز اسلم کو بطور یاور، بلال عباس خان کو بطور وجیہ تاثیر اور اذکاء دانیال کو بطور حیا تاثیر آپس میں بہن بھائیوں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ صباء قمر کی شادی عماد عرفانی سے ہوتی ہے۔ اشنا شاہ شاہ کو غریب دکھایا گیا ہے اور زیادتی کی کوشش کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ وہ مرتے وقت ایک نام بتاتی ہیں جو سب کی زندگیوں میں طوفان لے آتا ہے۔ نمبر5- ڈرامہ سیریل خودغرض ڈرامہ سیریل خودغرض کو 2017 میں اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر کیا گیا تھا۔ اسے تحریر کیا ہے ردا بلال نے۔ یہ ڈرامہ لکس سٹائل ایوارڈ کی مختلف کیٹگریوں میں نامزد ہو چکا ہے۔ اس کا مرکزی کردار سمیع خان، آمنہ شیخ، منشا پاشا اور سید جبران نے ادا کیا۔ اس ڈرامے کی کہانی پیار محبت دھوکہ فریب اوراس کے انسانوں پر ہونے والے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ڈرامہ پیچیدہ اور رشتوں کو دکھاتا ہے۔ سمیع خان جو کہ اس ڈرامے میں حسن کا کردار ادا کر رہے ہیں انکو خود غرض انسان کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو کہ اپنے بھائی جنید سے نفرت کرتے ہیں جبکہ جنید کو ایک سادہ اور سب سے پیار کرنے والے انسان کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ آمنہ شیخ کو ارا نامی سائیکالوجسٹ کے کردار میں دکھایا گیا ہے جو کہ حسن سے شادی کرنے والی ہیں جبکہ منشا پاشا کو عبیر کے کردار میں دکھایا گیا ہے جو کہ پہلے ہی خفیہ طور پر حسن سے شادی کر چکی ہیں ارو تنہا رہتی ہیں۔ نمبر6- ڈرامہ سیریل