پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے آج 74سال کا طویل عرصہ بیت گیا ہے ۔ان 74سالوں میں پاکستانی قوم نے مختلف نشیب وفرا ز کا سامنا بھی کیا ہے ۔ اس ملک نے جنگ کے حالات بھی دیکھے اور امن کے بھی ۔ابتداء میں ملک پاکستان ترقی کے راستے پر بھی گامزن رہا اس کی ترقی کو دیکھ کردنیا اس کے بارے میں بڑی بڑی پیش گوئیاں کرنے لگی کہ شاید آنے والے دنوں میں یہ ملک بہت سے ملکوں کو ترقی میں پیچھے چھوڑجائے گا اور دنیا میں ایک ایسے ملک کی صورت میں ابھرے گا کہ جس کو دیکھ کر دوسرے ممالک اپنا راستہ متعین کریں گے ۔ لیکن یہ پیش گوئیاں محض پیش گوئیاں ہی رہیں ۔ملک پاکستان آہستہ آہستہ اپنی ترقی کے راستے سے دور ہوتا چلا گیا اور مشکلات اور پریشانیوں نے اس ملک میں ڈیرے ڈالنا شروع کردیئے ۔ غیر ملکی قرضوں نے اس ملک کے وقار کو شدید ترین نقصان پہنچایا اور ملک جس نے دنیا اسلام کی رہنمائی کرنی تھی وہ دوسروں سے ڈکٹیشن لینے کا پابند ہوگیا ۔آج ہمارے ملک میں اگر بجلی کے ریٹ بڑھائے جاتے ہیں تو اس کے پیچھے آئی ایم ایف کی مرضی ہوتی ہے وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ملک میں کس چیز کی قیمت بڑھانی ہے کیونکہ قرضہ ہم انہی سے لیتے ہیں اس لئے مرضی بھی ان کی چلتی ہے ۔ ملک معاشی طور پر اب ہمیشہ ہی مشکلات کا شکار رہتاہے جوحکومت میںہوتے ہیں وہ اپنے دور کی معیشت کو اچھاا ور اوپر کی طرف جاتاہوا بناتے ہیں اور معیشت میں جو کمی کوتاہی ہوتی ہے اس کو اپنے سے پہلی والی حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ۔دوسری طرف وہ جو حکومت میں نہیں ہوتے وہ حکومت کے کئے گئے ہر اقدام میں خامیاں تلاش کرلیتے ہیں اور اپنے گذشتہ ادوار کو ملک کا سنہری دور قرار دیتے ہیں ۔ ملک میں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہی ہیں عوام ہمیشہ ہی کبھی چینی کے لیے، کبھی آٹے کے لئے اور کبھی روزگار کے لئے قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں ۔یہ تما م مسائل اتنے بڑے اور مشکل ہرگز نہ تھے کہ کوئی حکومت ان کو جلد یا دیر حل نہ کرسکے اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے کئی ممالک جو کہ اپنی ابتداء میں پسماندہ ہوا کرتے تھے وہ وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ کبھی بھی ترقی یافتہ نہ ہوتے ۔ ہمارے پیارے ملک کی بدنصیبی یہ رہی اسے مخلص حکمران نہ ملے جو کہ ملک کو ان مشکلات سے نجات دلانے میں اپنی توانائی صرف کرتے اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خلوص دل سے کام کرتے ۔دوسری طرف اگر ہم بحیثیت قوم اپنے اوپر نظر ڈالیں تو ہمیں اپنے گربیانوں میںبھی ایسی بہت سی کوتاہیاں نظرآئیں گی جنہیں دیکھ کرہمیں شرم سے پانی پانی ہوجانا چاہیے ۔بحیثیت قوم ہم میں قانون کی پاسداری کا رجحان نہ ہونے جیسا ہے ، قطار میں کھڑے ہونا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں ، جھوٹ ، بے ایمانی ، کاروبار میں دھوکہ دہی، زخیرہ اندوزی ،مذہبی تہواروں میں اشیاء کی قیمتیں بڑھانا اور ناجائز منافع خوری اور ٹیکس چوری اس کوہماری قوم کوئی جرم ہی نہیں سمجھتی نہ اس پر نادم ہوتی اور نہ ہی آئندہ اس سے بچنے کا ارادہ کرتی بلکہ جب اور جہاں موقع ملتاہے وہاں یہ موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ہی ہم نے 74سال کا عرصہ گزر دیا ،پاکستان ہم سے کیا یہ سوال کرنے کا حق دار نہیں ہے کہ ہم سب نے اس کے ساتھ یہ کیا کیا ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے اس حسین انعام کی ہم نے اس طرح سے قدر کی کہ اس کے نام کو پوری دنیا میں رسوا کردیا ۔آج ہم میں سے اکثر جشن آزادی تو بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہیں ، رات رات بھر شور شرابا کرکے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کل 14اگست ہے اور ہمیں اپنے ملک سے کتنا پیار ہے لیکن کیا یہ پیار صرف 13اگست کی رات اور 14اگست کے دن تک ہی محدود رہنا چاہیے ، کیا اسے پورے سال پر محیط نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت میں اس ملک کی خاطر اپنے اندر موجود برائیوں کو خود ہی ختم کردیں ،خودہی ایمانداری اور دیانت داری سے اپنی زندگیوںکو گزارانا شروع کردیں تاکہ اس ملک میں ترقی کے سفر کا آغا ہواور یہ ملک بھی دنیا کے دوسر ممالک کی طرح عالم میں اپنا وقار بحال کرسکے اور شان حال کرسکے ۔ تحریر: محمد فاروق قریشی
یوں تو ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے شعبے ہیں جن کو آپ معاشرے کا ناسور کہہ سکتے ہیں لیکن ان میں ایک پیشہ ایسا ہے جو کہ ان ناسوروں میں سب سے آگے نظر آتاہے اور وہ ہے گداگری یعنی بھیک مانگنے کا پیشہ !!! یہ وہ پیشہ ہے جو کہ دیمک کی طرح پورے معاشرے کو کھارہا ہے ۔ہر گلی ، ہر محلے اور ہر شہرمیں آپ کو روزانہ سینکڑوںکی تعدا د میں پیشہ ور بھیک مانگنے والے باآسانی نظر آئیں گے ۔جن کا اولین مقصد آپ کی جیب کا پیسہ بغیر کسی وجہ کے اپنی جیبوں تک پہنچانا ہوتاہے ۔ اب یہ بھیک مانگنے والے ہمارے معاشرے میں ایک روٹین کی طرح عام ہوچکے ہیں ۔ اب لوگ بھی بغیر کسی تردود کے انہیں باآسانی روپے پیسے دے دیتے ہیں ۔ پہلے کے دور میں یہ بھیک مانگنے والے بھیک مانگنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کرتے تھے ،اپنے جسم پر مصنوعی زخم بنواتے تھے تاکہ لوگوں کوان پر رحم آسکے لیکن اب معاملات بالکل برعکس ہوچکے ہیں اب انہیں کسی بھی قسم کے مصنوعی زخم کو بنوانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ صرف میلے کچلے کپڑوں سے ہی ان کاکام چل جاتاہے ۔پہلے کے دور میں ان لوگوں نے پورے ہفتے میں مانگنے کا ایک مخصوص دن ’’جمعرات ‘‘ کا بنایاہواتھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مانگنے کے دنوں کو برھانا شروع کردیا اور اب یہ لوگ پورے ہفتے ہی سڑکوں، گلیوں اور شہروں میں دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ دوکانوں کے باہر کھڑے ہوکر یاکسی ایسی دوکان کے باہر جہاں لوگوں کا رش رہتاہے وہاں یہ لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ہوٹل ،ریسٹورنٹ ،پٹرول پمپس اور ہر وہ جگہ جہاں ان کو روکنے کا کوئی انتظام نہ ہویہ لوگ روزانہ کی بنیادوں پر موجود رہتے ہیں ۔ ’’گھر میں جوان بچیاں بھوکی ہیں‘‘،’’ میرے والدکو کینسر ہے ۔‘‘، ’’میں دوسرے شہر سے آیاہوں راستے میں جیب کٹ گئی ہے جانے کا کرایہ نہیں ہے۔‘‘، ’’اللہ کے نام پہ کچھ دے دو مجھے دوائی لینی ہے ۔‘‘ یہ اور اس جیسی بہت سی صدائیں ہے جو روزانہ ہمارے کان سنتے ہیں اور ہم ان پر کان ہی نہیں دھرتے بلکہ روزانہ ایک ہی جیسی صدائیں لگانے والوںکو بار بار بھیک کے نام پر روپے دیتے رہتے ہیں اور ان پیشہ وروں کا پیشہ چلانے میں ان کی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ مذہبی تہواروں میں بھی یہ بڑی تعداد میں اُمڈآتے ہیں اور زکوۃٰ کے نام پر بھی لوگ انہیں روپے دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جانتی ہے کہ زکوۃٰ ان لوگوں کا حق ہے جو کہ لوگوں کے سامنے دست سوال یعنی بھیک نہیں مانگتے وہ اپنی سفید پوشی کے ساتھ اپنی زندگی کہ دن گزارہے ہوتے ہیں بس انہیں تلاش کرکے انہیں زکوۃٰ دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم انہوں تلاش کرنے کے بجائے ان پیشے وروں کو زکوۃٰ دے کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا اور جائز حق داروں کو تلاش نہیں کرتے حالانکہ آج کے دور میں یہ تلاش اتنی مشکل بھی نہیں رہی ۔مہنگائی نے غریبوں کی کمرتوڑ کردکھی ہوئی ہے اور ہر وہ شخص جسے اللہ نے صاحب ثروت بنایا ہے وہ بھی اپنے اردگرد بہت سے ایسے لوگوں کو جانتاہے جو کہ ضرورت مندہونے کے باجود بھیک نہیں مانگتے بلکہ اپنی زبانوں پر صبر کے تالے لگاکررکھتے ہیں ۔ان لوگوں کو اگر ان کا حق مل جائے تو آپ کا فرض بھی صحیح طرح ادا ہوسکے گا اور پیشہ ور بھکاریوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ تحریر :محمد فاروق قریشی mfcreative99@gmail.com