Home > Articles posted by Imran saeed
FEATURE
on Jan 10, 2021

سائنسدانوں نے اپنی طرز کی ایسی منفرد ڈیوائس تیار کر لی ہے جو اندھے افراد کی بینائی بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آسڑیلیا کی موناش یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک کام کر کے اس ڈیوائس کو تیار کیا ہے جس میں اسمارٹ فون اسٹائل کے الیکٹرونکس اور دماغ میں نصب کرنے والی مائیکرو الیکڑووڈز کا امتزاج استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نظام ابتدائی مکینیکل تحقیق اور بھیڑوں پر موثر ثابت ہوا تھا اور محققین انسانوں پر پہلے ٹرائل کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ نئی ٹیکنالوجی بصری اعصاب کو پہنچنے والے اس نقصان کو بائ پاس کر جاتی ہے جس کو مکینیکل اندھے پن کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس ایک کیمرے کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی تفصیلات کا ترجمہ کرتی ہے اور اسے ایک وژن پراسیسر یونٹی اور کاسٹیوم سافٹ ویئر کے ذریعے وائرلیس طریقے سے دماغ میں نصب ٹائلز تک پہنچا دیتی ہے۔ ہر ٹائلز تصویر ڈیٹا کو الیکٹرکل لہروں میں بدلتی ہیں جو دماغی نیورونز تک ایسے مائیکرو الیکڑونز کے ذریعے پہنچتی ہیں جو انسانی بال سے بھی پتلی ہوتی ہیں۔ اس ڈیوائس کو کمرشل بنیادوں پر تیار کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور صرف انسانی ٹرائل ہی اس کا حصہ نہیں اس ٹیکنالوجی کو تیار کرنے والی ٹیم اب اضافی سرمایہ کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ مستقبل قریب میں ایک کمرشل پرجیکٹ کے تحت ان کی تیاری اور تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ 10 بھیڑوں پر ہونے والی ابتدائی تحقیق میں اس کا تجربہ کامیاب رہا تھا اور کسی قسم کے مضر اثرات نظر نہیں آ ہے انہیں توقع ہے کہ یہی طریقہ کار مفلوج۔ مریضوں کے ساتھ ساتھ دیگر دماغی امراض کے شکار مریضوں کے لیے مفید اور علاج کا حصہ بن سکے گا۔ اس تحریر کو آگے شیر کریں اور تبصرہ کریں تاکہ میں اور اچھا لکھ سکوں شکریہ

FEATURE
on Jan 8, 2021

امریکی ادارے (سیلک) میں ماہرین نے ایک بہت بڑا ڈیجیٹل کیمرا تیار کر لیا ہے جو 3200 میگا پکسل کی تصاویر کھینچ سکتا ہے۔ البتہ اسے عام استعمال نہیں کیا جائے گا۔ “گیلکسی سروے آف اسپیس اینڈ ٹائم”نامی منصوبے کے تحت ایک فلکیاتی رصدگاہ میں نصب کیا جائے گا۔ اس رصدگاہ کا نام”ویرا روبن آبزرویٹری”رکھا گیا ہے اور اس کی تعمیر آج کل چلی میں جاری ہے۔ بات صرف بڑی تصاویر کی نہیں بلکہ یہ کیمرا اتنی مدھم چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو انسانی آنکھ کی قوت بصارت کے مقابلے میں دس کروڑ گنا مدھوم ہیں۔ یعنی اس کیمرے کی مدد سے ایسی تفصیلی تصویریں کھینچیں جا سکیں گی جو اس سے پہلے کسی فلکیاتی دوربین کے ذریعے ممکن نہیں تھیں۔ اس کیمرے میں عکس بندی (امیجنگ) کرنے والہ حصہ 61 سینٹی میٹر لمبا اور 61 سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ مجموعی طور پر یہ 189 انفرادی امیجنگ سینسرز کو آپس میں جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ جن میں سے ھر ایک 16 میگا پکسل کی تصویر لے سکتا ہے۔ اس کیمرے پر گزشتہ پانچ سال سے کام ھو رھا تھا جو کچھ ھی دن پہلے مکمل ھوا ھے۔ فی الحال اس سے کچھ تجرباتی تصویریں کھینچیں گئی ہیں تاکہ اس کی کارکردگی جانچی جا سکے۔ عام ڈیجیٹل کیمروں کے برعکس’ اسے انتہائی سرد ماحول درکار ہوتا ہے اور یہ منفی 150 ڈگری فارن ہائیٹ پر کام کرتا ہے۔ تاھم یہ اتنا طاقتور ہے کہ بہت دور اور انتہائی مدھم چیزوں کو بھی بہت صاف طور پر دیکھ سکتا ہے۔ یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے انسانی آنکھ ہزاروں میل دوری سے ایک موم بتی کو جلتا ہوا دیکھ لے۔ مزید آسانی کیلئے یوں سمجھ لیجئے کہ یہ کیمرا 24 کلومیٹر دور موجود ایک گالف بال تک کو باآسانی دیکھ سکتا ہے فی الحال اس کی مزید سخت آزمائشیں جاری ہیں۔ جو 2021 کے وسط تک مکمل ھونے کی تواقع ہے۔ اس کے بعد یہ کیمرا اپنی متعلقہ رصد گاہ میں پہنچا دیا جائے گا اور کائنات کے اسرار کھگلالنے میں ہماری مدد کرنے لگے گا۔