Home > Articles posted by
FEATURE
on May 31, 2021

جب ہم کوئی چیز خریدتے ہیں اور اس میں کوئی عیب نکل آۓ تو ہم کہتے ہیں کہ مطلوبہ کمپنی نے یہ چیز ٹھیک نہیں بنائی یعنی ہم براہ راست اس کمپنی کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اسی طرح ہم انسانوں میں بھی کئی عیب نکالتے ہیں ہمیں کسی کے کالے رنگ سے مسئلہ ہے، تو کسی کے موٹے ہونے سے،کسی کے لمبے قد سے تو کسی کے چھوٹے قد سے مسئلہ ہے غرض کہ مسائل کا انبار لگا ہوا ہے دراصل یہ ہماری قومی لا علاج بیماری بن چکی ہے۔ اگر آپ کو کسی سے مسئلہ ہے کہ بھئی فلاں ایسا کیوں ہے آخر؟ اور اس بے چارے سے پوچھ پوچھ کہ اس کا دل و دماغ خراب کر رہے ہوتے ہیں تو آپ ایک کام کیوں نہیں کرتے اپنے پیارے سے کمرے میں جائیں اور چھت پہ لگے پنکھے پہ رسی لٹکائیں اس رسی سے لٹک کے جلدی سے اس تخلیق کار کے پاس جائیں اور خود پوچھ لیں کہ اس نے فلاں فلاں کو ایسا کیوں بنایا؟؟آسان سا حل ہے آپ کی بے چینی بھی دور ہو جائے گی اور خس کم جہاں پاک۔ ہماری آج کل کی ماؤں کو بھی اپنے لال پیلے کے لیے چاند سی بہو چاہئیے اور اللہ معاف کرے اپنے چاند کو چاہے گرھن لگا ہو اور آپ جی جی بالکل آپ ہی آج تک چپ رہ کے اپنے بارے میں یہ تعریفیں سن سن کہ ثواب کما لیا؟ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ آپ جتنا چپ رہ کر ایسی باتیں سنیں گے تو مزید آپ کو ڈی گریڈ کیا جائے گا وہ کہاوت تھی نا کہ” ایک چپ سو سکھ” یہ پہلے زمانوں کے لیے تھی جب لوگوں کو خوف خدا ہوا کرتا تھا آج کے زمانے کے حساب سے تو یہ کہاوت ہونی چاہئیے “ایک چپ سو دکھ” تو آپ یوں کریں کہ اپنے بتیس دانتوں کے درمیان جو چھوٹا سا ہتھیار ہے اسے اپنی طاقت بنا لیں نہیں بھئی ہر ایک کے لیے نہیں ایسے دو ٹکے کے لوگوں کے لیے ۔ یاد رکھیں اللہ کی ہر تخلیق بے حد خوبصورت ہے آپ کو اس رب نے مکمل بنایا ہے اور بے حد پیار کے ساتھ۔اس کا ہر حال میں شکر ادا کریں اور خود کی قدر کریں اپنے آپ کو اہم جانیں۔اپنے آپ کو عزت دیں اور عزت کروائیں۔اور مضر صحت لوگوں سے دور رہیں۔ہم ترقی پذیر سے ترقی یافتہ تب تک نہیں بن سکتے جب تک ہم کالے گورے کے جھمیلوں سے نہیں نکلیں گے۔سوچئے گا ضرور فیصلہ آپ کا

FEATURE
on May 30, 2021

  زیادہ سوچناقطعًا بھی کوئی بُرا یا غلط کام نہیں ہے اصل مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کی سوچیں کہیں جاکر پھنس جاتی ہیں .اور پھر آپ کسی سے مدد (انسان یا فطرت) بھی نہیں مانگتے ہیں۔ عام طور اس طرح کا رویہ عموماً اُن لوگوں میں پایا جاسکتا ہے. جو اپنے آپ کو ایک “مطلق انسان” سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل مطلق انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی انا یعنی “میں” کے فولادی خول میں بند ہو جاتا ہے جس کے بعد کسی سے مدد مانگنا، چاہے وہ انسانوں سے مانگے یا پھر فطرت سے، اُس کے لیے موت جیسی لگنے لگتی ہے۔  اب وہ مطلق انسان اپنی “میں” میں سے نکل نہیں سکتا ہے اور دوسروں سے (انسان یا فطرت) مدد بھی نہیں مانگ سکتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک بند گلی میں پاتا ہے جہاں سے نکلنے کا واحد راستہ زندگی سے آزاد ہونا ہی اُسے سمجھ میں آتا ہے جس میں وہ کافی کشمکش میں سے گزرتے ہوے آخرکار وہ یہی فیصلہ کرتا ہے کہ اُس نے خود سے کوئی مدد نہیں مانگنی ہے لیکن اگر کوئی دوسرا اپنے طور پر مدد کرنے آ جاۓ تو وہ مدد لے لے گا مگر جب وہ کسی سوچ/معاملے میں پھنس جاتا ہے اور وہ خود سے کسی سے مدد نہیں مانگتا ہے اور کسی دوسرے کی مدد بھی نہیں پہنچتی ہے تو وہ آخر کار اپنے آپ سے لڑتے لڑتے اور کسی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور پھر وہی کرتا ہے کہ جو ہم جانتے ہیں یعنی وہ اپنے آپ کو زندگی سے آزاد کرنے کی کوشش کرسکتا ہے یا کر لیتا ہے۔