اپوزیشن بند گلی میں۔۔۔ تحریر: علی مشتاق
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بناتے ہی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف محاز کھول لیا تھا اپوزیشن نے دھاندلی کا رونا رونا شروع کر دیا تھا جب حکومت نے کمیٹی تشکیل دی کہ اگر اپوزیشن کے پاس ثبوت ہیں تو کمیٹی میں پیش کریں لیکن اپوزیشن وہاں سے بھاگ گئی کیونکہ ثبوت ہوتے تو پیش کرتے پھر شروع ہوتا ہے آل پارٹی کانفرنس کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جو آج تک جاری ہے اپوزیشن اتحاد دراصل ایک غیر فطری ہے یہ ذاتی مفاد کا کٹھ ہے حکومت کا گراوسے لے کر فوج مخالف بیانیہ تو کبھی کیوں نکلا تحریک سے لے کر ووٹ کو عزت دو تک اپوزیشن نے ہر حربہ آزمایا لیکن اپوزیشن کو ہر جگہ سے ناکامی کا سامنا کر نا پڑا آخر اتنی ناکامیوں کی وجہ کیا ہے کیوں اپوزیشن کو عوامی پزیرائی نہیں مل پا رہی اگر جمہوریت کی تاریخ دیکھے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے میوزیکل چیر کی طرح بارایاں
لگائی ہوئی تھی لیکن ملک کے مسائل جوں کے توں رہیں ملک مزید مقروض سے مقروض تر ہوتا گیا جب بھی اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ان کو ملک ٹھیک کرنے کا خیال آ جاتا ہے اپوزیشن کو اس ملک میں ہونے والے احتساب کا سامنا ہے جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کا انعقاد ہو پایا نیب زدہ اپوزیشن کو اس وقت عوام کے مسائل کی پرواہ نہیں بلکہ سخت احتساب سے بچنے کی فکر ہے اس لئیے کوئی بیماری کا بہانہ کرکے ملک سے فرار ہے تو کوئی کوشش کررہاہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کی منت ترلے کرکے ڈیل مل جائے لیکن اس میں بھی ابھی تک کامیابی نہیں ملی اب زرا ن لیگ پر بات کر لیتے ہیں ن لیگ کی اعلی قیادت جس میں شہباز شریف جو بڑے بھائی نواز شریف کے گارنٹر تھے وہ خود جیل میں ہیں اور بڑے بھائی نواز شریف جو علاج کی غرض سے ملک سے بھاگ چکے ہیں جبکے عدالت نے ان کو مفرور قرار دے دیا ہے لاکھ کوشش کے بعد نوازشریف کو کسی دوست ممالک کی طرف سے کچھ خاص مدد بھی نہ مل سکی اس دوران بار ہا دفعہ کوشش کی گئی کہ فوج سے رابطہ ہو جائے سابق گورنرسندھ زبیرعمر نے ملاقات بھی کی جس تصدیق آئی آیس پی آر اور خود زبیر عمر نے کی وہ بھی سود مند ثابت نہ ہوئی جس کے نتیجہ میں نواز شریف نے فوج کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ان کے خطبات پر پابندی لگا دی گئی نوازشریف وطن لوٹنے کی کوئی امید نہیں تب ہی الطاف حسین ٹو کے نقشے قدم پر چل پڑے ہیں پارٹی کی قیادت اپنی لاڈلی بیٹی مریم کے حوالے کی ہے جو پارٹی کو آگئے لیجانے کی بجائے اس کو کمزور سے کمزور تر کرنے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمن کے گرد بھی احتساب کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اس لیئے بےلگام گھوڑے کی طرح بدکنا شروع کر دیا ہےکیونکہ فضل الرحمن کی سیاست اقتدار کے گرد گھومتی رہی ہے موجودہ حکومت سیاسی حریف وزیراعظم عمران خان کی ہے اس کے خلاف مذہبی کارڈ سے کر ذاتی کارڈ تک کھیل لیا لیکن کوئی پلان کام نہ آیا بلکہ فضل الرحمن کے ساتھ پہلے لانگ مارچ میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہاتھ کیا اب بھی پیلز پارٹی نے یعنی آصف زرداری جو فضل الرحمن کے قریبی مانے جاتے سبز باغ دیکھ کر پوری تحریک کو بریک لگا دی پیپلز پارٹی نہ سندھ حکومت کو چھوڑے گئی نہ ہی قومی اسمبلی سے استعفے دے گئ آصف زرداری بھی احتساب کے رڈر پر ہیں ان کو اپنی حد کا پتہ ہے وہ اس گرے لائن کراس نہیں کریں گئے چاہیے لانگ مارچ کی صورت میں ہو یا جی ایچ کیو کے سامنے دھرنا دینے والی مضحکہ خیز بات ہو جس وجہ سے سندھ حکومت کوئی خطرہ ہو جس وجہ اپوزیشن بندگلی میں جاتی نظر آ رہی ہے