عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے اور ان کے جانشین تھے وہ خود بھی بڑے محدث تھے اور ان کے شاگرد بھی وقت کے اکابرین میں سے بنے اللہ رب العزت نے ان سے دین کا کام بہت زیادہ لیا ایک وقت تھا جب پاک و ہند میں ان کا فتوی چلا کرتا تھا دلی کی جامع مسجد چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر ان کا مدرسہ اور گھر تھا انہوں نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنائی ہوئی تھی جیسے مسجدیں بیعت کہتے ہیں تعلیم و تعلم کی مصروفیت کی وجہ سے وہ اکثر نمازی وہیں پڑھا کرتے تھے البتہ جمعہ مبارک کی نماز جامع مسجد میں جا کر پڑھا کرتے تھے ان کے مریدین ان کی زیارت کے لیے تڑپتے تھے اللہ تعالی نے ان کو بہت زیادہ حسن و جمال عطا فرمایا تھا انکا چہرہ منور تھا کے لوگ دیکھنے کو ترس ہ کرتے تھے دنوں میں ان کی تعلیمی مصروفیت کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو سکتی تھی البتہ جب وہ جمعہ کی نماز کے لیے جاتے تو اس وقت لوگ راستوں میں کھڑے ہوکر ان کا دیدار کیا کرتے تھے ان کے خادم کا نام فصیح الدین تھا اب لوگ ان کے خادم سے کہتے کہ جی ہم تو دیدار سے بھی محروم ہو جاتے ہیں خادم اگر پرانے ہو تو پھر بعض اوقات بے تکلفی بھی ہو جاتی ہے چناچے ایک دن فصیح الدین نے موقع پا کر عرض کیا حضرت سارا ہفتہ تو لوگ ویسے ہی انتظار میں رہتے ہیں اور جب آپ جمعہ کے لیے جاتے ہیں تو چہرہ پر رومال ڈال کر ان کو دیدار سے محروم کر دیتے ہیں حضرت بھی چل رہا تھے اور وہ بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے جب انہوں نے بات کیتو شاہ جی نے اپنا سر کا کپڑا اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ بے ہوش ہو کر گر گئے وہ جب ہوش میں آیا تو پوچھنے والوں نے پوچھا کہ جی آپ کے ساتھ کیا بنا وہ کہنے لگا کہ جیسے ہی اس نے اپنا رومال سر پر ڈالا تو مجھے بازار کے اندر انسان تو تھوڑے نظر آئے لیکن کتے بلے اور خنزیر بہت زیادہ چلتے نظر آئے ان کی اندر کی شکلیں اس کو کشف کی صورت میںآرام سے محفلوں میں بیٹھ کر زندگی گزارتے ہیں اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین