شہادت کا رُتبہ

In اسلام
January 02, 2021

شہادت کا رُتبہ
شہادت ایک عظیم رتبہ ہے۔شہادت کا منصب ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔شہادت کے لیے اصحابہ ِرسولﷺنے بہت جدوجہدکی۔خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رتبے کو پانے کے لیے میدانِ جنگ میں کفار سے لڑتے لڑتے کئی تلواریں تو ڑدیں۔مگر ان کو شہادت نصیب نہ ہوئی۔ان کی بڑی خواہش تھی کہ ان کو شہادت کا منصب ملےمگر ان کو موت آئی تو بسترمرگ پر آئی ۔اللہ کے فرمان کے مطابق شہید کو مردہ نہیں کہناچاہئے کیوں کہ اس کو رزق عطاء کیا جاتا ہے۔شہید اس عارضی زندگی کو چھوڑنے کے بعدایک نئی زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ دنیا میں زندہ ہے۔

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو یہ عظیم رتبہ نصیب ہوا۔جن کے بارے نبی کریمﷺکا فرمان مبارک ہے:کہ امیر حمزہ جنت میں شہدا ءکے سردار ہیں۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ وہ عظیم ہستی ہیں جن کو میدانِ کربلا میں شدید گرمی اور پیاس کی حالت میں یہ مقام حاصل ہوا۔حضرت امام حسنؓ جن کو زہر پلا کر شہید کیا گیا۔یہ وہ نوجوان ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ہیں۔شہید کو جنت میں عظیم نعمتیں عطاء کی جاتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے بھی شہادت کی دعا کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں شہید کر دیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کر دیا جاؤں یہی الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سے چار دفعہ دہرائے۔شہید پر جہنم کی آگ حرام ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ کے راستے میں گرد آلود ہونے والے قدموں کو جہنم کی آگ چھو بھی نہیں سکتی”۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ایک کافر اور کافر کو قتل کرنے والا مجاہد جہنم میں اکٹھے نہیں ہو سکتے”۔اس کا مطلب مجاہد جنت میں جائے گا اور کافر ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے گا ۔ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ دونوں جہنم میں چلے جائیں۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ ایک مجاہد جب شہید کیا جاتا ہے تو جنت میں تمام نعمتیں پانے کے بعد بھی وہ یہی االفاظ کہتا ہے یااللہ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ تیرے رستے میں دوبارہ شہید ہو کر آؤں۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی سچے دل سے اللہ سے شہادت کا سوال کرتا ہے اللہ اس کو شہادت کا مرتبہ عطاء کرتا ہے پھر چاہے وہ طبعی موت ہی کیوں مرے۔لٰہذا ہر مسلمان کے دل میں شہادت کا جوش اور جذبہ ہونا چاہئے۔آج کل ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت عام ہے کہ شہید ہونے والےکے تمام گناہ رب معاف کردیتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بندوں پرکیے گئے گناہ رب معاف نہیں کرتا۔مثلاًاگر شہید پر کسی کا قرضہ ہو تو وہ رب کی جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا قرض کوئی ادا نہ کردے۔