تعلیمی اداروں کی بے بسی۔

In دیس پردیس کی خبریں
January 02, 2021

سال 2020 نے جہاں معمولات زندگی تہس نہس کر کے رکھ دیئے وہیں ایسے کئی افراد اور ادارے بے بس دکھائی دیئے جو عام حا لات میں عزت سے گزر بسر کر رھے تھے۔ بد نصیب سے ہم ایسی اقوام میں شامل رھے جنہوں نے آ زادی تو حاصل کر لی مگر دلی اور ذہنی غلامی میں اپنی مثال آ پ ہیں ۔ دنیا بھر میں آ زاد ہونے والے ممالک نے اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے علم کے فروغ کو ہتھیار بنایا مگر ہم واحد عظیم قوم تھے جو تعلیم کے ساتھ کھیلتے تھے ہمیں بس اتنی تعلیم چاہیے جو ڈگری کا ایک کاغذ ھاتھ میں پکڑا دے۔

پھر اس کاغذ کے ٹکڑے کے بوتے پہ اک ملازمت درکار ھے جس سے ہم زندگی گزار لیں ۔ اسلام کے نام پہ حاصل کی گئی واحد مملکت خداد میں مسلمان بھول گیا کہ علم مومن کی گمشدہ پونجی ھے۔ چنانچہ نتائج سامنے ہیں کہ جب بھی تعلیمی اداروں پہ قدغن لگی ہم چپ چاپ تماشہ دیکھتے رھے۔ تعلیم دو سے تین حصوں میں بٹ گئی غریب کے بچے کو ننگے پاؤں بستہ لئے بغیر زبردستی سکول داخل کرانے کی کوشش میں گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے اک الگ کہانی بیان کرنے لگے کیونکہ غریب کے دسترخوان پہ روٹی پہنچانے کی ذمہ داری میں بھی یہی معصوم محنت مشقت کی نظر ھو گئے ۔ دوسری طرف مڈل کلاس کے لوگ بمشکل اپنی آ مدنی سے گھر کے پاس ھی تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھجنے لگے تا کہ وہ دو جمع دو سیکھ کے کسی دکان پہ بیٹھنے کے قابل ھو جاہیں پھر ایک ایلیٹ کلاس کے برانڈڈ سکولز سامنے آ گئے جنہوں نے صاف اعلان کر دیا کہ ہم اس ملک کے لئے بچے تیار نہیں کر رھے ہمارا مقصد بچوں کو تعلیم حاصل کرنے باہر کے ممالک بھیجنا ھے اسی کلاس سے ہم غلام بن غلام کے لئے حکمران طبقہ بھی پیدا ھونے لگا جن کا نظریہ پاکستان سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔

ایسے میں ہم کس طرح اپنے معاشرے سے سنجیدگی کی تواضع رکھ سکتے ہیں ۔ بے بس تعلیمی اداروں کی کتھا اس وقت سے شروع ھوتی ھے جب وہ حکومتی سطح پہ زبردستی بندش کا شکار ھوئے ۔ کرائے پہ حاصل کی گئ بلڈنگز میں بمشکل میٹرک۔ ایف۔اے اسٹاف بھرتی کر کے لوئر مڈل کلاس کے لئے 200 سے 500 روپے میں تعلیم کا بیڑا اٹھانے والے سال 2020 میں دھڑا دھڑ بند ھونے لگے کیونکہ نہ تو کرایہ ادا کیا جا سکتا تھا اور نہ ھی اساتذہ کی ماھانہ تنخواہیں۔ یوں وہ ادارے جنکی سرپرستی کر کے کسی بہتر نہج پہ پہنچا کے ملکی سطح پہ مفید بنایا جا سکتا تھا ان کو سرے سے ختم کر دینے کی مہم حکومت کی پیش نظر رھی۔ ٹرانسپورٹ، بزنس، سیاست میں سے کسی کی طرف حکومت وقت کا نزلہ نہ گرا برق گری تو بے چارے ان ہی اداروں پہ جو اپنی بساط میں قوم کے معماروں کی تربیت کر رھے تھے اب وہ سب دیوار سے جا لگے۔ حیران کن رد عمل والدین کا رھا جو اپنی محدود آ مدنی سے غیر ضروری رسم و رواج ، فیشن، کپڑا کی دور میں تو شامل رھے مگر تعلیم کی افادیت سے مکمل انکاری ھو گئے ان کو گلی محلوں میں کھیلتا بچہ زیادہ محفوظ لگا بہ نسبت کسی تعلیمی ادارے میں بھجنے کے۔ گویا اب ہم خود جہالت کی وہ پنیری بو رھے ہیں جن پہ خود غرضی ، بے حسی ، مفاد پرستی کے ایسے پھل لگیں گے جو کتنی دہائیوں تک ہمارے معاشرے کو متاثر کرتے جاہیں گے۔

شبانہ اشرف