بلیک ہولز اس کائنات کے سب سے خطرناک ابجیکٹس ہوتے ہیں۔ یہ اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ یہ اپنے راستے میں آنے والے ہر ایک چیز کو نگل لیتے ہیں۔ آج ہم آپ لوگوں کو بلیک ہولز کے بارے میں ایسے حقایق بتانے والے ہیں جسے سن کر کر آپ لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہاں نا رہے گی۔ وڈیو شروع کرنے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر____کاشف احمد
ہم جانتے ہیں کہ بلیک کولز کی گراوٹی بہت زیادہ ہوتی ہے اسلئے روشنی بھی اس کی طاقتور گریوٹی سے نہیں نکل سکتی اور یہی ایک وجہ بن جاتی ہے کہ ہم بلیک کولز کو نہیں دیکھ سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم بلیک ہولز کو نہیں دیکھ سکتے تو ہمیں بلیک ہولز کے بارے میں اتنی معلومات کہاں سے مل رہی ہے ؟؟؟ویل یہ ایک اچھا سوال ہے لیکن اسکا جواب بہت ہی سیمپل ہے۔ آئن سٹائن نے اپنے مسوات میں بلیک ہولز کے بارے میں اس وقت پیشن گوئیاں کی تھی جب بلیک ہولز کی دریافت نہیں کوئی تھی اور بعد میں جاکر سائینسدانوں نے مزید تحقیق سے بلیک ہولز کے وجود کو تسلیم کرلیا۔ بلیک ہولز جں اپنی طاقتور گراوٹی کی مدد سے کسی ستارے کو نگلتا ہے تب ستارے کی روشنی بلیک ہول کے چاروں اور پھیل جاتی ہے جس سے ایکس ریز ڈیکیٹ کی مدد سے ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ ایک بلیک ہول ہے کیونکہ ستارے کو نگلنے کے بعد بلیک ہول کے ارد گرد کا ایریاں روشن ہوجاتا ہے جس سے سائنسدان اسانی کے ساتھ یہ جان پاتے ہیں کہ یہ ایک بلیک ہول ہے۔ بلیک ہول کی ایک حقیقیںتصویر جو آپ سکرین پر دیکھ رہیں ہیں یہ 2019 میں کامیابی کے ساتھ سائنسدانوں نے کھینچا تھا۔
دوستوں یہ خطرناک آبجیکٹس نا صرف پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں بلکہ یہ ہماری اپنی کہکشاں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہے جں میں سب سے بڑا بلیک کول ہماری کہکشاں کے سنٹر میں واقع ہے جو سپر میسو بلیک کول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بڑا بلیک کول ہم سے 27000 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے لیکن اتنی دوری ہونے کے باوجود بھی ہم اس کے اثرات کہکشاں میں دیکھ سکتے ہیں جیسا کہ جوروپین سپیس ایجینسی نے ہمیں بتا ہے کہ یہ ہمارے سورج سے 4.6 میلین گناہ زیادہ بڑا ہے اب اس سے آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ بلیک ہول کتنا بڑا ہوگا۔ بلیک ہولز دراصل میں خلاء میں موجود ان ستاروں سے ہی بنتے ہیں جو اپنی عمر گزار کر مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور پھر جب یہ ان کے مرکز میں لوہا پیدا ہوجاتا ہے تو یہ ایک بڑے دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں۔ پھٹنے کے بعد ان کے مرکز میں بچا ہوا ایک چھوٹے سائز کا ستارا بہت ہی زیادہ طاقتور بن جاتا ہے۔ یہ اتنا طاقتور بن جاتا ہے کہ اپنے ملبے کو واپس سمیٹ کر نگل لیتا ہے اور ایک بلیک ہول بن جاتا ہے۔ یہ بلیک کول اپنے راستے میں آنے والی ہر ایک شے کو نگلتا چلا جاتا ہے ہے اور اسکی سائز بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہی بلیک ہولز کا آغاز ہوتا ہے لیکن یہ بات زہن میں رکھئے کہ بلیک کولز ہر ستارے سے نہیں بنتے بلکہ ایک بلیک ہول بننے کیلیے ستارے کا سائز ہمارے سورج سے 10 گناہ زیادہ کونا چاہیے تب جاکر وہ بلیک ہول بن سکتا ہے۔
بلیک ہز خطرناک کونے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب بھی ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بلیک کولز دوسری کائناتوں کے اندر جانے کے راستے ہیں کیونکہ اج تک کسی کو بھی یہ علم نہیں ہوا کہ ایک بلیک کول کہ اندر کیا ہے اسلئے ایسے دعی کئے جاتے ہیں۔ دوسری طرف آئن سٹائن کے مساوات کے مطابق زیادہ گراوٹی والے جگہوں پر وقت کی رفتار دھیمی ہوجائیگی یعنی اگر آپ ایک بلیک ہول کے قریب موجود ہہں تو آپ کیلئے وہا گزرا ایک منٹ زمین والوں کیلئے گھنٹوں کے برابر ہونگے۔ اگر اپ وہا ایک دن گزارتے ہیں تو زمین لر ایک ہفتہ گزر گیا ہوگا چونکہ ہم جانتے ہیں کہ بلیک ہولز کی گراوٹی بہت زیادہ ہوتی ہے اسلئے یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ وہاں وقت دھیما چلتا ہے اور جیسا کہ میں نے اپ کو بتایا کہ بلیک کول کے اندر سے روشنی بھی نہیں نکل سکتی اسلئے ہم بلیک ہول کے اندرونی حصے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہم نہیں جانتے کہ بلیک کول کے اندر گرنے سے کیا کوتا ہے اور کیانہیں ہوتا اور یہ کہ ایہ بلیک کول کے اندر کیا کیا راز چھپے ہوئے ہیں لیکن ہاں ایک بات ضرور ہے اور وہ یہ کہ بلیک ہولز جیسے بھی ہیں لیکن ان بلیک کولز کے اندر کچھ تو خاص ہے جن سے ہم بے خبر ہیں اور وہ جو بھی ہے وہ بہت ہی امیزنگ ہے۔