Skip to content

Syed Ameer Ali (1849-1928)

Syed Ameer Ali (1849-1928)

Syed Ameer Ali was born on 6th April 1849 in a Bengali village called Chansura. He was the youngest son of his parents. His father was in favour of contemporary English education and then, Ameer Ali was sent to Hugli College. He passed his bachelor’s from Calcutta University in the year 1867 and also received his law degree.

In 1869 he joined the law profession and won a scholarship to England. Shortly after his return to India Ameer Ali joined the Calcutta tribunal. In 1882 he became a member of the Imperial legislature. In 1890 he became a state supreme court judge and in 1904 after his retirement, he visited England where his family resided.

His wife was the sister-in-law of Lord Dufferin and then he had contacts in English politics. He was the first Indian who was nominated a member of the council to which he remained a member till his death on 3rd August 1928.

Along with his political efforts and achievements Ameer Ali is known for his literary works. He was the author of two famous works one of which is The History of Saracens published in 1889 that tells the story of the rise and fall of Saracens. The other work is The Spirit of Islam published in 1891. He also wrote articles mainly countering anti-Muslim articles of a Christian.

But Ameer Ali is specially referred to as a political figure. During the times of Sir Syed Ahmed Khan when he was strongly against Muslim participation in politics, Ameer Ali founded a political organization in the year 1878 called National Mohammadan Association at Calcutta. It was later renamed as Central Mohammadan Association when plenty of its branches started working everywhere in India.

Earlier in 1877, he had discussed the importance of politics in the lives of Indian Muslims with Sir Syed. He told Sir Syed that the survival of the Muslims as an independent nation in India wouldn’t be possible without the establishment and dealing of their political organization. That was the most important aim of the establishment of the Central Mohammadan Association. the remainder of the objectives were as under:

  • Political training of the Muslims
  • Safeguarding Muslim interests
  • Creation of fine feelings among the followers of various faiths in India

After the inspiration of that organization, Syed Ameer Ali toured the far-flung areas of India and spread the objectives of his party. The most important achievement of that Association was the formation of a memorandum that was submitted to the govt of India in 1852.

During this memorandum the causes of the Muslim backwardness in India were mentioned including the exclusion of Muslims from the govt jobs, the damage to their educational systems, the elimination of Muslim Law, and the discrimination between Hindus and Muslims all told the spheres of life, etc. during this memorandum, these demands were put forth for the amelioration of Muslim population of India.

  • Efforts should be made to diminish the educational backwardness of Muslims.
  • The re-implementation of Persian script replacing Devnagri
  • Appointment of Muslim judges to legislate in the light of Mohammadan law

In May 1908, Syed Ameer Ali founded the London branch of the All India Muslim League and in a deputation in 1909 led by Syed Ameer Ali to Lord Morely, the then Secretary of State for India was convinced to grant Muslims separate electorates. In the 1920s, during the Khilafat Movement, Syed Ameer Ali presented the emotional point of view of the Indian Muslims to the national government.

Ameer Ali is additionally famous for his social works. He founded a medical care Fund for Indian Women. With the assistance of this fund Dufferin Hospital for the Indian Women was founded in Calcutta. He also founded the Red Crescent Society to assist provide medical facilities to the Arab Muslims during the Balkan wars and 1st war. He died in the year 1928.

سید امیر علی (1849-1928)

سید امیر علی 6 اپریل 1849 کو بنگالی گاؤں چنسورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کے سب سے چھوٹا بیٹے تھے۔ ان کے والد جدید انگریزی تعلیم کے حق میں تھے اس لیے امیر علی کو ہگلی کالج بھیج دیا گیا۔ انہوں نے 1867 میں کلکتہ یونیورسٹی سے بیچلر پاس کیا اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1869 میں اس نے قانون کے پیشے میں شمولیت اختیار کی اور انگلینڈ کے لئے اسکالرشپ حاصل کی۔ بعد ازاں ہندوستان واپسی پر امیر علی نے کلکتہ ہائی کورٹ میں شمولیت اختیار کی۔ 1882 میں وہ امپیریل لیجسلیٹو کونسل کے رکن بن گئے۔ 1890 میں وہ ہائی کورٹ کے جج بنے اور 1904 میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ انگلینڈ چلے گئے جہاں ان کا خاندان مقیم تھا۔ ان کی اہلیہ لارڈ ڈفرن کی بھابھی تھیں اور اس لیے ان کے انگریزی سیاست میں رابطے تھے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہیں پریوی کونسل کا رکن نامزد کیا گیا تھا جس کے وہ 3 اگست 1928 کو اپنی وفات تک رکن رہے۔

اپنی سیاسی کاوشوں اور کارناموں کے ساتھ ساتھ امیر علی اپنے ادبی کاموں کے لیے بھی مشہور ہیں۔ وہ دو مشہور تصانیف کے مصنف تھے جن میں سے ایک 1889 میں شائع ہونے والی ہسٹری آف سارسینز ہے جو سارسینز کے عروج و زوال کی کہانی بیان کرتی ہے۔ دوسرا کام 1891 میں شائع ہونے والا اسپرٹ آف اسلام ہے۔ اس نے بنیادی طور پر ایک عیسائی کے مسلم مخالف مضامین کا مقابلہ کرنے والے مضامین بھی لکھے۔

لیکن امیر علی بنیادی طور پر ایک سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سرسید احمد خان کے دور میں جب وہ سیاست میں مسلمانوں کی شمولیت کے سخت خلاف تھے امیر علی نے 1878 میں کلکتہ میں نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اس کا نام سنٹرل محمڈن ایسوسی ایشن رکھ دیا گیا جب اس کی بہت سی شاخوں نے پورے ہندوستان میں کام کرنا شروع کیا۔

اس سے پہلے 1877 میں انہوں نے سرسید کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں سیاست کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ انہوں نے سرسید سے کہا کہ ہندوستان میں ایک آزاد قوم کے طور پر مسلمانوں کی بقا ان کی اپنی سیاسی تنظیم کے قیام اور کام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہی مرکزی محمڈن ایسوسی ایشن کے قیام کا بڑا مقصد تھا۔ باقی مقاصد حسب ذیل تھے۔

نمبر1:مسلمانوں کی سیاسی تربیت
نمبر2:مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ
نمبر3:ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اچھے جذبات پیدا کرنا

اس تنظیم کی بنیاد کے بعد سید امیر علی نے ہندوستان کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا اور اپنی جماعت کے مقاصد کو پھیلایا۔ اس ایسوسی ایشن کا سب سے اہم کارنامہ ایک میمورنڈم کی تشکیل تھا جو 1852 میں حکومت ہند کو پیش کیا گیا تھا۔ اس میمورنڈم میں ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کا ذکر کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے خارج کرنا، نقصانات شامل تھے۔

ان کے تعلیمی نظام، مسلم قانون کا خاتمہ، زندگی کے تمام شعبوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امتیازی سلوک وغیرہ۔ اس میمورنڈم میں یہ مطالبات ہندوستان کی مسلم آبادی کی بہتری کے لیے پیش کیے گئے تھے۔

نمبر1:مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
نمبر2:دیوناگری کی جگہ فارسی رسم الخط کا دوبارہ نفاذ
نمبر3:محمدی قانون کی روشنی میں قانون سازی کے لیے مسلم ججوں کی تقرری

مئی 1908 میں، سید امیر علی نے آل انڈیا مسلم لیگ کی لندن شاخ کی بنیاد رکھی اور 1909 میں سید امیر علی کی قیادت میں اس وقت کے سکریٹری برائے ہندوستان لارڈ مورلی کے ساتھ ایک وفد میں مسلمانوں کو علیحدہ انتخابی حلقے دینے پر راضی کیا گیا۔ 1920 کی دہائی میں تحریک خلافت کے دوران سید امیر علی نے برطانوی حکومت کے سامنے ہندوستانی مسلمانوں کا جذباتی نقطہ نظر پیش کیا۔

امیر علی اپنے سماجی کاموں کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی خواتین کے لیے ایک طبی امدادی فنڈ قائم کیا۔ اس فنڈ کی مدد سے کلکتہ میں ہندوستانی خواتین کے لیے ڈفرن ہاسپٹل کی بنیاد رکھی گئی۔ انہوں نے بلقان کی جنگوں اور پہلی جنگ عظیم کے دوران عرب مسلمانوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں مدد کے لیے ریڈ کریسنٹ سوسائٹی بھی قائم کی۔ ان کا انتقال 1928ء میں ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *