انڈوں کی معیشت
جب ہم حکومت میں آئے تو خزانہ خالی تھا اور قرضہ بہت زیادہ تھا ۔ہم نے سوچا کہ خزانہ بھر دیں گے اور قرضہ کم کر دیں گے ۔معیشت بے حال تھی اور پبلک بےروزگار ۔ ہم نے سوچا کہ ان دونوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیں گے-مہنگائی زوروں پر تھی اور کرپشن بےلگام تھی ۔ہم نے سوچا کہ ریاست مدینہ جیسی بنائیں گے اور دودھ شہد کی نہریں بہا دیں گے
اس لیے ہم نے آتے ہی سب سے پہلے پرائم منسٹر ہائوس کی گائیں بھینسیں بیچ دیں ۔ان سے حاصل ہونے والی رقم کی مرغیاں اور انڈے لیے اور عوام کو بھی مرغیاں لے کر بل گیٹ بننے کا مشورہ دیا۔جب سردیوں میں انڈے تین سو روپے درجن ہوئے تو ہماری تابعداری کرنے والے لوگوں کو فائدہ ہوا جس سے ان کی معیشت مضبوط ہوئی ۔اسی دوران ہی ہم نے کے پی کے کی طرح یہاں بھی ملین ٹری سونامی کا آغاز کر دیا جس میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔جب ہر طرف ہی ہریالی پھیل گئی تو ہم نے سوچا کہ معیشت کو مزید بہتر کرنے کے لیے پاکستان میں سیاحت کو پروموٹ کیا جائے ۔یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ کرونا کی وجہ سے پروازیں بند ہو گئیں، سیاح یہاں نہ آسکے اور معیشت بہتر نہ ہو سکی ۔اس وقت ہمارے لگائے گئے پودے تناور درخت بن چکے تھے جن پر شہد کی مکھیاں بیٹھنا شروع ہو گئی تھیں ۔
اس لیے ہم نے سوچا کہ ملیںن ہنی پروگرام شروع کر کے پاکستان کی معیشت کو سنبھالا جائے ۔۔اب کی بار بھی اگر مکمل شہد بننے سے پہلے مکھیاں اڑ گئیں تو یہ منصوبہ بھی ناکام جائے گا اور معیشت سنبھل نہ سکے گی.اب ہم نے سوچا ہےکہ ای گیمنگ کے ذریعہ اپنی معیشت بہتر کی جائے کیونکہ تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے نوجوان گھر پر بیٹھے پب جی اور دوسری آن لائن گیمز کھیل رہے ہیں ۔شاید اس سے قدرے معیشت بہتر ہو ۔شاید نیٹ پرابلم کی وجہ سے اس طرح سے مضبوط معیشت ڈاون لوڈ ہونے میں وقت لگے ۔اس لیے عوام کو صبر کرنا ہو گا ۔عوام گھبرانے لگی ہے مگر ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا گھبرانا نہیں ہے۔پہلے سال تو ہم معیشت کو بالکل سمجھ نہ سکے مگر اب ہمیں تو معیشت کی سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے مگر شاید معیشت کو ہم اور ہمارے اقدامات سمجھ نہیں آ رہے ۔
معیشت بہتر کرنے کے لیے حکومت کی کارکردگی یہیں تک محدود ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے ابھی تک حکومت خود کنفیوژن کا شکار ہے ۔تبھی تو ایک کے بعد ایک یو ٹرن ۔۔۔۔کابینہ جس نے عوام کی خوش حالی اور بد حالی کے فیصلے کرنے ہیں ،بالکل ایک میوزیکل چیئر کی گیم بن چکی ہے ۔مانگے تانگے کے لوگ کبھی کسی چیئر پر بیٹھ رہے ہیں تو کبھی کسی چیئر پر ،اگر خان صاحب محض معیشت پر ہی توجہ دیں تو بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اگلی بار کی حکومت بھی ۔کیونکہ معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے جس سے عام آدمی کی زندگی براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔معیشت بہتر ہونے کی صورت میں عالمی طور پر بھی پاکستان اپنی ساکھ قائم رکھ سکتا ہے ۔پاکستان میں عالمی تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہے یوں پاکستان اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے ۔یہ سب ممکن ہے اگر معیشت مضبوط ہو جو انڈے مرغی بھینس اور شہد سے ممکن نہیں ۔اس کے لیے سنجیدگی سے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جو ابھی تک نہیں بن پائی ۔۔۔
حذیفہ سنان