سنہ 1988 کا سال عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس سال ایک تباہ کن دہائی کا خاتمہ ہوا جس نے افغانستان میں بہت زیادہ خونریزی اور تباہی مچائی اور پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے۔ جنیوا معاہدے کا دنیا کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے میں بہت اہم کردار ہے۔ یہ واضح ہے کہ جنیوا معاہدے کی وجہ سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بڑھی اور عالمی معاملات میں ایک اہم ثالث بن گیا۔ پاکستان، سوویت یونین، افغانستان اور امریکا جنیوا معاہدے کے شریک تھے جس میں پاکستان نے افغان مسئلے کے حل کے لیے شرائط طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ معاہدے کے بعد دیگر شرکاء کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
سنہ 1979 میں، سوویت کی فوج نے اپنے پڑوسی افغانستان میں مداخلت کی تاکہ اسے ضم کرنے اور اسے کمیونسٹ حکومت کا حصہ بنایا جائے۔ مختصر عرصے کے بعد یہ کام سوویت یونین کے لیے بہت مشکل ہو گیا۔ افغان مجاہدین نے پاکستان اور عالمی برادری کے تعاون سے سوویت کاز کو شدید دھچکا دیا۔ سوویت قیادت کو مہم کی ناکامی کا احساس ہوا اور ملکی سطح پر بگڑتے سماجی و اقتصادی حالات نے سوویت قیادت کو تباہ کن صورتحال سے باہر آنے پر مجبور کیا۔ اس طرح 1981 کے اوائل میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام تصفیہ کے لیے بات چیت کا عمل شروع ہوا۔ طویل مذاکرات اور بات چیت کے بعد 14 اپریل 1988 کو جنیوا میں حتمی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کے لیے امریکہ اور سوویت یونین کی ضمانتوں کے تحت دو طرفہ معاہدے پر دستخط ہوئے۔ افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کا ٹائم فریم نو ماہ کا تھا جس میں پچاس فیصد افواج کو تین ماہ میں انخلا کرنا تھا۔ افغان مزاحمتی گروپوں نے نہ تو اس معاہدے میں حصہ لیا اور نہ ہی اس کو قبول کیا جس نے سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر شدید اثرات مرتب کیے تھے۔
یہ معاہدہ پاکستان کی سفارت کاری اور عسکری حکمت عملی کی علامت ہے۔ اس نے دنیا میں پاکستان کے سفارتی معیار کو بڑھایا لیکن پاکستان کے داخلی اور خارجی شعبوں پر اس کے واضح اثرات مرتب ہوئے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو اور صدر ضیاء الحق کے درمیان پہلے سے ہی رگڑ چل رہی تھی۔ لیکن اس وقت کے وزیر خارجہ کی طرف سے معاہدے پر دستخط نے تنازعہ کو وسیع کر دیا کیونکہ ضیاء نے افغانستان میں مزاحمتی گروپوں پر مبنی پاکستان نواز حکومت قائم کرنے پر سخت موقف اختیار کیا جو سوویت یونین کے لیے سوال سے باہر تھا۔ آخر کار اسے بہانہ بنا کر ضیاء نے ایک منتخب جائز حکومت کو برطرف کر دیا جس نے نئے جمہوری نظام کو شدید دھچکا پہنچایا
جنیوا معاہدے کی روح پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے میں تھی جس میں سوویت یونین اور امریکہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور عدم مداخلت کے ضامن تھے۔ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد نااہل نجیب اللہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھال نہ سکے اور پاکستان نے بار بار جائز اور عوامی نمائندہ حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ مختلف نسلی گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور بالآخر نجیب اللہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور کابل میں نئی عبوری پاکستان نواز حکومت قائم کی گئی۔ پاکستان ایران اور پاکستان کے تعلقات میں تناؤ کا باعث بننے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ ایران سنی مجاہدین کے ہاتھ میں اقتدار نہیں چاہتا تھا۔
جنیوا معاہدے نے سوویت یونین کی طرف سے پاکستان کو درپیش سکیورٹی خطرات کا مسئلہ بھی حل کر دیا کیونکہ افغان جنگ کے دوران سوویت یونین نے پاکستان کو متعدد بار دھمکیاں دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ پاکستان مجاہدین کی حمایت کی وجہ سے آگ سے کھیل رہا ہے۔ جنیوا معاہدے کے چند ماہ بعد ضیاء کے طیارے کے حادثے کو بھی سوویت یونین کی سازش قرار دیا جا رہا ہے جسے ضیاء سے جان چھڑانے کے امریکی منصوبے کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ نے وہ تمام امداد روک دی جس کا افغان بحران کے دوران مہاجرین کی آباد کاری کے لیے وعدہ کیا گیا تھا۔ امریکی پابندیوں نے پاکستان کے لیے مہاجرین کا بوجھ اٹھانا مشکل بنا دیا، حالانکہ یہ بات جنیوا معاہدے میں شامل ہے کہ 15 لاکھ مہاجرین افغانستان واپس جائیں گے۔ افغانستان میں افراتفری اور خانہ جنگی نے مہاجرین کی واپسی کا محفوظ راستہ فراہم نہیں کیا۔ پناہ گزینوں نے پاکستان میں بہت مسائل پیدا کیے ہیں۔
سنہ 1979 میں طاقتور سوویت سلطنت اچانک بکھر گئی اور اس کے نتیجے میں وسطی ایشیا میں چھ مسلم ریاستیں وجود میں آئیں۔ پاکستان نے ان ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جبکہ روس نئی ابھرنے والی ریاستوں میں روس نواز حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف ایران بھی نئی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ ڈالنا چاہتا تھا جو ایران اور پاکستان کے درمیان دشمنی کا باعث بنے۔
خلاصہ یہ کہ اگرچہ جنیوا معاہدہ پاکستان کی سفارت کاری اور عسکری حکمت عملی کے اعلیٰ آبی نشان کے ساتھ بہادر افغانوں کی فتح تھی لیکن اس نے خطے میں مختلف اثرات چھوڑے۔ اس معاہدے کے بعد دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ سفارتی طور پر یہ ایک کامیاب کوشش تھی جس میں سوویت یونین کی تاریخ میں پہلی بار کسی ملک سے اپنی افواج کا انخلاء ہوا۔ سماجی اور اقتصادی طور پر جنیوا معاہدے کے بعد کا نتیجہ پاکستان کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا۔