شہید ہوش محمد شیدی . مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں
دن رات صدیوں سے ہوتے آ رہے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے ، لیکن 24 مارچ 1843ع کا دن ایک ایسا دن تھا جس میں محب وطن اور غدار وطن علیحدہ ہونے والے تھے ، سچے اور جھوٹوں کی پہچان ہونی تھی ، سندھ دھرتی پر مر مٹنے والے اور اس دھرتی کا سودا کرنے والے منظرعام پر آنے والے تھے
یہ دن ایک امتحان تھا کہ کون ہے جو اپنے اعلیٰ ذھانت اور بہادری کے جوہر دکھاتا ہے اور کون ہے جو بزدلی کو اپنا زیور بنا کر سامراج کے سامنے گردن جھکا کر ذلت کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے ۔انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد سندھ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا اور 1843 کی شروعات میں ہی سندھ کے میروں کو دھمکایا کہ اگر تم لوگوں نے ھمارے معاہدے پر دستخط نہ کئے تو پھر تمہارا برا حال کیا جائے گا ، میروں نے اس معاہدے کے متعلق ابھی باتیں شروع ہی کی تھیں کہ انگریزوں نے حملہ کرکے امام گڑہ پر قبضہ کر لیا جو خیرپور کے میروں کے ہاتھ میں تھا . اس وقت سندھ کے میروں کی آپس میں بھی نہیں بنتی تھی . جیسے حیدرآباد میر نصیر خان کے پاس تھا اور میر صوبدار اس کا مخالف تھا . اور جلد ھی انگریزوں کی سازباز میں آگیا ـ فروری 1843 میں جب میانی کی جنگ لگی تو میر صوبدار میروں کی شکست سن کر انگریزوں کی طرف مٹھائی اور تحفے تحائف بھیجے
منصور قادر جونیجو نے جے الانا کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ میر صوبدار ہر وقت سر چارلس سے خفیہ خط و کتابت کرتا رہتا تھا جس میں انہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ سندھ کے میروں کا ساتھ نہیں دے گا اور انگریزوں کی مخالفت نہیں کرے گا انگریز غداروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے اسی طرح جب میر انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کر رہے تھے تو میر صوبدار نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ خود کو اور اپنے لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے سے دور رکھا اور جب 17فروری اٹھارہ سو تینتالیس کو جب میانی کی جنگ لگی تو اس وقت میر صوبدار حیدرآباد کے قلعے کے اندر بیٹھا تھا جب اسے پتہ چلا کہ انگریزوں کو فتح ہوگئی ہے اور میر بھاگ گئے ہیں تو اس نے اپنے بھروسے والے آدمي منشی آوتراء کو جو سندھ کا ہندو عامل تھا کچھ قیمتی تحائف دے کر سر چارلس کی طرف بھیج دیا