پہیہ
آپ اپنے گھر میں نظر دوڑائیں اور کسی ایسی چیز کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں جس کا پہیے کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ تقریبا ہرمشین ، ہرآلے ، انسان کی بنائی ہوئی ہر چیز کا پہیے سے کسی نہ کسی طرح تعلق ضرور ہے
پہیے کی ایجاد کے دور اور مقام کے بارے میں بہت سے اندازے لگائے گئے ۔ غالب خیال یہی ہے کہ پہیے کا آغازلڑھکتے ہوئے درخت کے تنے سے ہوا ۔ شاید تنے کے کراس سیکشن کے نتیجہ میں کافی بھاری پہیہ وجود میں آیا۔ بھاری اشیاء کو ایک سے دوسری جگہ لےجانے کے لیے سلیج پہلے سے زیر استعمال تھے ۔ سلیج بنانے کے لیے دوتنوں کے اوپر ایک فریم لگا کر اسے ایک رسی کے ذریعے کھینچا جا تا تھا ۔ پہیہ زیادہ با سہولت تھا ۔
قدیم ترین پہیوں کی ساخت کے حوالے سے یہ بات معلوم ہے کہ لکڑی کے تین تختوں کواوپر نیچے رکھ کر میں میخیں لگائی جاتیں اور پھر گولائی میں تراش لیا جا تا تھا۔ تاریخ میں ملنے والے قدیم ترین پہیے کا تعلق سومیر سے ہے ( انداز 3500 ق م ۔)
ارےکی وجہ سے پہیہ بہت ہلکا اور مفید ہو گیا۔ اس قسم کا پہیہ اندازاَ 2000 قبل مسیح میں ایشیائے کوچک کے رتھوں میں استعمال ہو رہا تھا۔ تب پہیہ نقل و حمل کی گاڑیوں میں کام آنے لگا تھا۔ زراعت ، دور دراز علاقوں کے ساتھ تجارت ، جنگ و جدل وغیرہ سبھی کاموں میں پہیوں کی ضرورت تھی ۔ بالخصوص رتھ نے چار پہیوں والے ڈیزائن سے تبدیل ہو کر دو پہیوں والی گاڑی کی شکل اختیار کر لی ۔ قبل ازیں اس میں خچروں یا گدھوں کو جوتا جاتا تھا. اس گھوڑا گاڑی کے مختلف حصوں کا وزن آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور رتھوں نے جنگ کے طریقوں میں زبردست انقلاب پیدا کیا۔ قبل مسیح زمانے کے ہندوستان میں آریاؤں ، اناطولیہ کے حتیوں اور مصریوں نے ان جنگی رتھوں پر بہت زیادہ انحصار کیا۔
چین سے لے کر برطانیہ تک ہر جگہ پر جنگی رتھ نے تباہی پھیلائی ۔ آخر کار سکندراعظم کے دور میں اس کی جگہ گھوڑا سوار رسا نے لے لی ۔ پہیے کو ترقی دینے میں رومنوں نے کافی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے وسیع سڑکیں بنائیں ۔ سلطنت کی تعمیر اور انتظام کے لیے بہتر پیغام رسانی اور آمدورفت کے طریقوں کی ضرورت تھی ۔ یہ سہولیات جنگ اور تجارت کے لیے بھی بہت مفید تھیں ۔ سڑکوں کی وجہ سے ان سب چیزوں نے ترقی کی ۔ رومنوں کی تعمیر کردہ سڑکیں صدیوں تک قائم رہیں ۔ درحقیقت ان میں سے کچھ سڑکیں برطانیہ میں اب بھی استعمال ہوتی ہیں
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہیے نے بھی ترقی کی ۔لو ہے کے ہب بنائے گئے اور دھرے میں گریسں لگائی جانے لگی. مکمل لوہے کے پہیوں کی مضبوطی نے رتھوں کو مزید کارآمد بنایا۔ لیکن پہیے کو زمینی نقل وحمل میں ہی معاون نہیں سمجھا جاتا تھا۔ رتھ نے ٹینک ، ویگن نے ٹرین اور چھکڑے نے کار کی صورت اختیار کی۔ مگر پیسے کے دیگر استعمالات کے بغیر ان میں سے کوئی بھی چیز نہ بن پائی ۔کمہار کے چاک نے برتن سازی کے فن میں زبردست انقلاب برپا کیا۔ یہ بتاناممکن نہیں کہ چاک کسی دور میں بنا لیکن اس کی قدیم ترین صورت تقریباَ 3500 قبل مسیح کے میسو پوٹیمیا میں موجو تھی ۔ اس دور تک ایک گھومتے ہوے پہیے پر مٹی کا گولا رکھ کر ہاتھوں کی مدد سےاسے اپنی مرضی کی صورت دیناممکن ہو گیا تھا ۔ بنائے جانے والے برتنوں میں پیالے ، ہانڈیاں وغیرہ شامل تھے ۔ یہ برتن خشک چیزوں ،مشروبات ،تیل ،کھانوں اور اناج وغیرہ کوسٹور کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ برتن سازی نہ صرف تجارتی چیزوں کو سنبھالنے کے لیے مفید تھی بلکہ بذات خود ایک بنیادی تجارتی مصنوع بھی تھی۔ مختلف تہذیبوں نےبحری جہازوں اور گاڑیوں کے ذریعہ برتنوں کا لین دین کیا ۔
تاہم ، پہیے کا ایک اہم ترین پہلو یہ سادہ سی حقیقت ہے کہ گولائی میں حرکت کو اختیار میں لایا گیا اور اس سے مختلف کام لیے گئے ۔ مثلا قدیم رہٹوں میں کنویں کا پانی مٹی کے برتنوں کے ذریعہ او پر لایا جا تا تھا ۔ یہ برتن ایک بہت بڑے پہیے کے ساتھ بندھے ہوتے تھے ۔ بیلوں یا گھوڑوں کی ذریعے اس پہیے کو چلایا جاتا تھا ۔ یوں زرعی زمینوں کو سیراب کرنے میں زبردست مدد حاصل ہوئی ۔ ہوا، پانی یا جانور کی قوت سے چلنے والے پہیوں سے بھی کام لیا گیا .پن چکیاں، آبیٹربائنزوغیر ہ اس کی مثال ہیں ۔
در حقیقت دھرے یا ایکسل والے پہیے کی ایجاد نے کئی دیگر ایجادات اور اختراعات کوممکن بنایا. دیو قامت ہنڈولوں سے لے کر گھڑی کے تقریبا خورد بینی گئیروں تک، صنعتی انقلاب کی بنیاد پہیے کی قوت پر ہی تھی ۔