Skip to content
  • by

نوری

. . . . . . . . . . نوری. . . . . . . . . . . .

وہ سات سال کی ایک سانولی سی لڑکی تھی جو بد قسمتی سے ایک فقیرنی کے گھر پیدا ہوئی تھی اس کا باپ بھی فوت ہو چکا تھا وہ اپنی فقیرنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی.

ہر روز صبح سویرے جب دنیا نیند سے بیدار ہو کر اپنی مصروفیات میں لگ جاتی تھی، نوکریوں والے دفتروں کو جاتے تھے، روزگار والے اپنے کام میں لگ جاتے تھے، اور جب باقی بچے اپنے والدین کے ساتھ اسکول کو جاتے تھے تو نوری اپنی ماں کے ساتھ بازار کا رخ کرتی تھی کیوں کہ اُسے بھی ماں اپنی طرح بھیک مانگنا سکھا رہی تھی.
نوری روز اپنی ماں کے ساتھ بازار کی ٹھوکریں کھاتی، کہیں سے بھیک ملتی، کہیں کوئی کہتا معاف کرو، کہیں تو لوگ غصے سے اُس کی ماں گالیاں بھی دیتے تو وہ معصوم نظروں سے لوگوں کی طرف دیکھ کر اپنی ماں کی طرف دیکھتی اور معصوم ذہن میں پتا نہیں کیا کیا سوچتی.

جب وہ دوسرے بچوں کو اسکول سے آتے جاتے دیکھتی تو وہ مڑ مڑ کر منٹوں تک ان کو دیکھتی رہتی اور ان کی دنیا میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی.پورا دن زندگی کی جنگ لڑ لڑ کر جب شام کو اپنے گھر آتی “جو سڑک کی سائیڈ پر ایک درخت کے نیچے تھا”پورے دن دھکے کھانے کے بعد اتنا کچھ نصیب ہوتا تھا کہ صرف رات کی روٹی کا بندوبست کر سکیں.

رات کو وہ اپنی ماں کے سینے پر سر رکھ گھنٹوں تک دن کو ہونے والے واقعات کو سوچتی رہتی اور کھلے آسمان سے تاروں کی کشمکش کو دیکھتی رہتی. ایک دن نوری اور اس کی ماں صبح صبح اپنی رات کی روٹی کی جستجو میں نکلیں تو ایک تیز رفتار ٹرالر ڈرائیور کے کنٹرول سے نکل کر اُس کی ماں کو کچلتا ہوا ایک بلڈنگ سے ٹکرایا. لوگ جمع ہو گئے ہر کوئی بول رہا تھا “فقیرنی مر گئی فقیرنی مر گئی” وہ بالکل خاموش ہو گئی لوگوں کی بھیڑ میں اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا.

پھر ایمبولنس آئی اور لاش کو اُٹھا کر چلی گئی اور پھر سب لوگ چلے گئے سوائے نوری کے وہ راستے پر لگے اپنی ماں کے خون کو دیکھتی رہی اور رات ہو گئی سورج کے ساتھ ساتھ سب لوگ اپنی گھروں کو چل دئیے پر نوری کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں جائے وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اس کی ماں مجھے یہاں چھوڑ کر گئی ہے تو یہیں سے ہی لینے آئی گی اور سوچتے سوچتے اس کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا.

اور جب آنکھ کھلی تو دیکھا اس کے جیسے بہت سے بچے وہاں موجود تھے اور وہ یتیم خانہ تھا. آدمیوں کی اتنی بھیڑ میں کوئی ایک انسان تو ملا جو اُسے صرف یتیم خانے میں چھوڑ کر آیا جہاں وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے اور آج بھی اُس کو اپنی ماں کا انتظار ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *